مشکل وقت میں پاکستان کی کامیاب سفارت کاری!!!!
گوکہ گذرے چند ماہ پاکستان کے لیے بہت مشکل رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی انتشار خطرناک حد تک نظر آیا پھر معاشی اعتبار سے بہت سخت جھٹکے لگے، ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا ہماری کرنسی کمزور ہوتی رہی، قرضوں کا حجم بڑھتا رہا، کاروباری سرگرمیوں میں تعطل رہا اسی دوران تباہ کن سیلاب نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ اتنی مشکلات تھیں کہ لوگوں کو ہر نیا دن ایک نئی مشکل اور مصیبت کی خبر دیتا تھا۔ لوگوں کی سوچ منفی ہوتی جا رہی تھی، مسائل تھے کہ کم ہی نہیں ہو رہے تھے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ سب یہ سوچ رہے تھے کہ اتنی بڑی تباہی سے کیسے نکلیں گے۔ نکل بھی سکیں گے یا نہیں، سیلاب سے تباہ علاقوں کی بحالی کیسے ہو گی، زندگی معمول کی طرف کیسے واپس آئے گی۔ دوسری طرف عمران خان روزانہ قوم میں نفرت پھیلا رہے تھے وہ قوم کو مسلسل گمراہ کر رہے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن جہاں مشکلات سے کئی رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں اس کے ساتھ یہ مشکلات ہی نئے دروازے بھی کھولتی ہیں۔ پاکستان نے اس مشکل وقت میں کامیاب سفارتکاری سے نہ صرف دنیا کی توجہ حاصل کی ہے بلکہ اپنے تعلقات کو بھی بہتر بنایا ہے اور گلیشیئرز کے پگھلنے میں دنیا کو ان کی غلطیوں کا احساس دلاتے ہوئے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے لیے دنیا کو ساتھ ملایا ہے۔ دنیا کے اہم ممالک نے پاکستان کی آواز سنی ہے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں معمول کی زندگی واپس لانے کے لیے کردار ادا کرنا شروع کیا ہے۔ اس سلسلہ میں عسکری قیادت کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف سیاسی قیادت میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جس انداز میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں اور دنیا کو ان کی غلطیوں اور دوہری پالیسیوں کا احساس دلاتے ہوئے پاکستان کے لوگوں کی قربانیوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ یہ پاکستان کی سفارتی سطح پر بڑی کامیابی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر ہمیں تنہا کر دیا تھا، عالمی تنہائی کے شکار پاکستان کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری دوبارہ دنیا سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کے سیاسی حریفوں کو تنقید کا پورا حق حاصل ہے لیکن تنقید کرتے ہوئے قوم کو یہ بھی بتائیں کہ ملک کو کہاں چھوڑ کر گئے تھے، سعودیہ سے تعلقات خراب، متحدہ عرب امارات سے اختلافات ، امریکہ سے تعلقات خراب، چین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری، یورپی یونین سے تعلقات خراب غرضیکہ کوئی ایسا ملک نہیں جس کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں۔ پاکستان کو ایسی عالمی تنہائی کا سامنا تو اس وقت بھی نہیں تھا جب یہاں دہشت گردوں کے حملے ہوتے تھے، خود کش دھماکوں ہوتے تھے۔ ان دنوں بھی دنیا پاکستان کے ساتھ جڑی تھی لیکن گذشتہ دور حکومت میں ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہوا اور اب اس تنہائی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کوششوں میں مصروف ہے۔
یہ وزارت خارجہ کی کامیابی ہے کہ دنیا بھر کے سفیر پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں اور اپنے ممالک پر سیلاب متاثرین کی مزید امداد کے لیے زور دے رہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں دفاعی سامان کے حوالے سے بڑی کامیابی سے بھارت کو تکلیف تو پہنچی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کی مدد اور تباہ شدہ علاقوں میں معمول کی زندگی جلد بحال کرنے کے لیے امریکہ اور اقوام متحدہ پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اسی طرح عالمی اداروں کا رویہ بھی پاکستان کے ساتھ بہتر ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے عالمی اداروں کے ساتھ معاہدوں کی پاسداری نہ کر کے ملک کے لیے بڑے مسائل پیدا کیے، عالمی اداروں اور اہم ممالک کا اعتماد خراب ہونے کی وجہ سے کم وقت میں پاکستان کے مسائل خطرناک حد تک بڑھے۔ کئی ماہ کی دن رات محنت سے اب حالات معمول پر آنے کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا متوجہ ہو رہی ہے، اہم عالمی اداروں اور ممالک کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ بات چیت کے دروازے کھل رہے ہیں اور ان حالات میں بھارت کو بہت تکلیف ہو رہی ہے۔ ان ساری چیزوں کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو ملنا چاہیے۔ پاکستان تحریکِ انصاف سیاسی حریفوں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے فیصلوں اور موجودہ سیاسی حکمت عملی پر غور کرے جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے پی ٹی آئی قیادت نے سمجھداری سے کام نہیں لیا، بہتر مشوروں پر عمل کرنے کے بجائے ضد پر اڑے رہے اور آج دوسروں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ پاکستان کے مسائل اور ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے غیر حقیقی راستہ اختیار کیا اور اس غیر حقیقی راستے پر چلنے کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان ہوا۔
بلاول بھٹو زرداری کے وزیر خارجہ بننے کے بعد مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت شروع ہوئی ہے۔ پاکستان جرمن وزرائے خارجہ نے تنازع جموں وکشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل پر زور دیا تھا، وزرائے خارجہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا۔ بلاول بھٹو نے مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری میں بڑھتی تشویش کو واضح کیا۔ یہ عمل بھارت کو ناگوار گزرا۔ جرمنی کے وزیر خارجہ کی مسئلہ کشمیر میں دلچسپی نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ امریکا کے معروف دانشور مائیکل ک±وگل مین نے مسئلہ کشمیر پر جرمن وزیرخارجہ کے بیان کو پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر سے متعلق جرمن وزیرخارجہ کا بیان ایک سرپرائز تھا، یورپ کے سینئر عہدے دار کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی بنانے کی بات عام طور پر نہیں کرتے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی ریمارکس غیرقانونی قبضے کی وجہ سے عالمی سطح پر تنہا ہونےکی مایوسی ظاہرکرتے ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کے خدشات دور کرے۔
یہ دفتر خارجہ کے متحرک ہونے اور اصل مسائل پر توجہ کا ثبوت ہے۔ گوکہ پاکستان کو سیلاب سے ہونے والی تباہی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے ساتھ جڑنا اور بنیادی مسائل پر لوگوں کو ساتھ ملانا بہرحال خوش آئند ہے۔ اب ہمیں معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اداروں کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔ کسی بھی اندرونی یا بیرونی گروہ کو ملک کے امن کو تباہ کرنے اور پاکستان کو سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہیے۔