شہباز شریف ، حمزہ کے اکا ئونٹس میں براہراست رقم جمع ہونے ، نکوانے کے شواہد نہیں
لاہور (خبرنگار) سپیشل سنٹرل کورٹ میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت 19 ملزموں کیخلاف شوگر ملز کے ذریعے 25 ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر کارروائی آج بارہ اکتوبر تک ملتوی ہوگئی۔ حمزہ شہباز کی بریت کی درخواست پر دلائل مکمل ہوگئے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر سے آج دلائل طلب کر لئے، پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں جس سے ثابت ہو کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں براہ راست پیسے جمع ہوئے یا نکلوائے گئے ہوں، عدالت میں حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزم پیش ہوئے، وزیر اعظم شہباز شریف سرکاری مصروفیت کی وجہ سے پیش نہ ہوسکے، عدالت نے شہباز شریف کی ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کرلی، درخواستگزاران کے وکیل نے بریت کی درخواستوں پر دلائل دیئے کہ کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ملک مقصود کے اکاؤنٹس شہباز شریف یا حمزہ شہباز کے اثرورسوخ پر کھولے گئے۔ عدالتی استفسار پر ایف آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پیسے کا لین دین اور منتقلی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کہنے پر ہوئی، ایف آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ جن کے اکائونٹس ہیں وہ اسے تسلیم کرتے ہیں۔ دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی ایسا بیان ریکارڈ پر ہے کہ کسی نے کہا ہو کہ حمزہ کے دبائو پر یہ سب کیا ہو یا کسی اکاؤنٹ ہولڈر نے ایسا کوئی بیان دیا یا نہیں۔ پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا ایسا کوئی بیان ہمارے پاس موجود نہیں۔ امجد پرویز نے کہا کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹس کھلوائے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پیسے کہاں سے آئے یہ معلوم نہیں۔ وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ جن کے اکاؤنٹس ہیں وہ اسے تسلیم کرتے ہیں، مرحوم گلزار کا اکاؤنٹ بھی رمضان شوگر ملز کی انتظامیہ آپریٹ کرتی رہی۔ عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا آپ تحریری طور پر یہ سب دے سکتے ہیں؟۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے تحریری بیان دینے کے متعلق ہدایات نہیں، میں ریکارڈ کے مطابق معاونت کر سکتا ہوں۔ عدالت نے استفسار کیا آپ کے پاس زبانی شواہد کیا ہیں؟۔ امجد پرویز نے کہا کہ 66 گواہوں میں سے کسی نے شہباز شریف اور حمزہ پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ عدالت نے پوچھا کیا ایسے کوئی اکاؤنٹس کھولنا اور بند کرنا جرم نہیں ہے؟ یہ کوئی ثواب کا کام تھوڑی ہے۔ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ یہ جرم نہیں ہے، اگر جرم ہے بھی تو یہ دیکھنا پڑے گا کون سا ادارہ اسے ڈیل کرتا ہے، اس کیس میں بینک والے بھی مدعی نہیں ہیں، جب کسی کے اکاؤنٹ میں دس لاکھ روپے تک آئیں تو اسکی تفصیلات دینی پڑتی ہیں۔