قا نون نہیں تو ما فیا ز ہو نگے ، نیب ترامیم سے ملزموں کو فا ئدہ ہوا : چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک میں قانون نہیں ہو گا تو مافیاز ہوں گے۔ ہمارے ہاں 2001ء میں ویلتھ ٹیکس کو ختم کردیا گیا۔ ملک میں جائیداد بنانے پر کوئی کنٹرول نہیں نہ احتساب ہے۔ بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح ہوا ہے، قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے نیب سے استفسار کیا کہ اربوں کی باتیں ہو رہی ہیں تو بتا دیں نیب نے آج تک کتنے ہائی پروفائل مقدمات سپریم کورٹ تک فائنل ہوئے ہیں۔ عمران کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں، جس پر وکیل نے کہا یہ معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے، جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے، معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے، قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا، زیادہ تر غیر ضروری اخراجات ایلیٹ کلاس کی عیاشی پر ہوئے، ملک میں ستر سے اسی فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، عدالت حکومت کو قرض لینے سے نہیں روک سکتی، معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنا ماہرین کا ہی کام ہے، اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو قانون میں مکمل شفاف ٹرائل کا طریقہ کار موجود ہے، جس پر وکیل نے کہا میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہیں ایسا نہ ہو پورا کیس مکمل ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے بنیادی حقوق کا تو سوال ہی نہیں تھا، ہمیں پہلے یہ بتائیں نیب ترامیم کے ذریعے کس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جسٹس منصو ر علی شاہ نے کہا کیا کوئی ایسی عدالتی نظیر موجود ہے جہاں شہری کی درخواست پر عدالت نے سابقہ قانون کو بحال کیا ہو، شہری کی درخواست پر عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے، خواجہ حارث نے کہا پبلک منی کا معاملے پر عدالت قانون سازی کالعدم قرار دے سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کوئی بھی قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہونے پر ہی کالعدم ہوتا ہے، نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ ابھی تک بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کے نقطے پر دلائل نہیں دیئے گئے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا چائنہ میں تو کرپشن پر سزائے موت دی جاتی ہے، تو پھر کیا کوئی شہری عدالت آ سکتا ہے کہ بنیادی حقوق متاثر ہونے پر کرپٹ افراد کو پھانسی دی جائے؟ عدالت نے اپنے دائرہ اختیار کو بھی دیکھنا ہے، اگر ملک میں احتساب کا قانون نہ ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمان قانون بنائے، لیکن اگر قانون ہو تو عدالت اسے سخت کرنے کا کیسے کہہ سکتی ہے؟ آپ کی درخواست مان کر ترامیم کالعدم ہو بھی جائیں تو پہلے والا قانون کیسے ازخود بحال ہوجائے گا؟۔ سپریم کورٹ نے قانون کی تشریح کرنی ہے نہ کہ قانون ڈیزائن کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا نیب قانون میں کرپشن کی حد کیا ہوگی اس کا تعین کون کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایف اے ٹی ایف نے ہمارے قوانین میں نقائص کی نشاندہی کی، قوانین میں بہتری کیلئے وہ معیار اپنانا ہوگا جو دنیا بھر میں اپنایا گیا ہے، کیا نیب ترامیم سے جان بوجھ کر قانون میں نقائص پیدا کیے گئے؟ کیا نیب ترامیم مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی ہیں؟ اربوں روپے کرپشن کے 280 کیسز پہلے ہی واپس ہوچکے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ پارلیمان سے بدنیتی منسوب کر رہے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ نے 1996 میں ایک کیس میں زندہ درخت کی مثال دی زندہ درخت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا، قانون نہیں ہوگا تو مافیاز ہوں گے، پاکستان میں بہت سے مافیاز ہیں، میں کسی مافیا کو نام نہیں لوں گا لیکن مافیاز کی وجہ سے بد امنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے ممکن ہے یہ مافیاز کرپٹ ہوں یا نہ ہوں ۔ہمارے نظام میں مناسب ریگولیٹر موجود نہیں۔ دنیا میں جائیداد اور دولت پر ٹیکس لیا جاتا ہے، یہ سب نکات ہیں جو سیاسی نوعیت کے ہیں جو پارلیمان نے طے کرنے ہیں، احتساب تندرست معاشرے اور تندرست ریاست کیلئے اہم ہے، کچھ نقائص بھی موجود ہیں، چیف جسٹس نے کہا نقص یہ بھی ہے کہ کچھ سرکاری ملازمین جیلیں کاٹ کر بری ہو چکے ہیں، کچھ کاروباری شخصیات بھی نیب سے مایوس ہوئیں ، نیب ترامیم میں کچھ چیزیں بھی ہیں جن سے فائدہ ہوا، ہم نے توازن قائم کرنا ہے، کچھ ایسی ترامیم بھی ہیں جو سنگین نوعیت کی بھی ہیں، نیب قانون میں حالیہ تبدیلی کے سبب ملزموں کو فائدہ بھی پہنچا، پلی بارگین اور پانچ سو ملین روپے کی حد مقرر کرنے سے ملزموں کو فائدہ ہوا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے نیب سے 1999 سے لیکر جون 2022 تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کر تے ہوئے قرار دیا کہ بتایا جائے کتنے اربوں کے مقدمات میں نیب نے ملزموں کو سزائیں دلوائیں ہیں، اب تک کتنے ایسے کرپشن کے کیسز ہیں جن میں سپریم کورٹ تک سزائیں برقرار رکھی گئیں، اب تک نیب قانون کے تحت کتنے ریفرنسز مکمل ہوئے، اور ان ترامیم کے بعد کتنے نیب قانون میں تبدیلی کے بعد کتنی تحقیقات اور ریفرنسز ختم ہوئے۔ تفصیلات طلب کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج (بدھ) تک ملتوی کردی۔