پارلیمنٹ کی بے توقیری
پارلیمنٹ عوام کا منتخب ریاست کا بالا دست ادارہ ہے۔ جس کی توقیر ہر شہری کا فرض ہے۔ پارلیمانی تاریخ نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اگر منتخب اراکین اسمبلی خود باوقار نہ ہوں تو وہ پارلیمنٹ کی عزت اور وقار قائم رکھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ آئین کیمطابق صدر پاکستان ریاست کے سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا اور خطاب کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ جب صدر پاکستان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہیں تو جمہوری روایات کے مطابق ان کے عزت و وقار اور پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے مختلف ملکوں کے سفیر بھی صدر مملکت کے خطاب کو سننے کیلئے ایوان میں حاضر ہوتے ہیں۔ افواج پاکستان کے تینوں چیفس آف سٹاف بھی صدر پاکستان اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کا خطاب سننے کیلئے ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم کیلئے انتہائی افسوسناک اور شرمناک بات ہے کہ جب صدر پاکستان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کرنے کیلئے تشریف لائے تو ایوان میں صرف ایک درجن کے قریب اراکین پارلیمنٹ موجود تھے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر صدر پاکستان کو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے خطاب کا بائیکاٹ کیا جائیگا۔ تو وہ اپنے خطاب کو مؤخر کر دیتے ۔ صدر پاکستان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے جو آجکل حالت لانگ مارچ میں ہے اور انکے قومی اسمبلی کے اراکین مستعفی ہو چکے ہیں یہ الگ بات کہ وہ تنخواہیں اور مراعات بدستور وصول کر رہے ہیں۔ انکا ایوان میں آکر صدر پاکستان کا خطاب سننا شاید قانونی طور پر آسان نہیں تھا البتہ تحریک انصاف کے سینیٹ کے اراکین خطاب سننے کیلئے حاضر ہو سکتے تھے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے لیڈر اکثر اوقات ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے رہتے ہیں مگر جب صدر پاکستان مشترکہ اجلاس کو خطاب کرنے کیلئے آئے تو انہوں نے ووٹ کی عزت کا ذرہ بھر خیال نہ کیا اور اپنی آئینی ذمہ داری سے انحراف کرتے ہوئے صدر پاکستان کے خطاب کا خاموش بائیکاٹ کر دیا۔ پاکستان کی موجودہ سیاست اس قدر افسوسناک اور زوال پذیر ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف کے جن ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے گئے اور الیکشن کمیشن پاکستان نے انکے انتخابی حلقے خالی قرار دیکر ان پر ضمنی انتخابات کرانے کا شیڈول بھی دے رکھا ہے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست لے کر چلے گئے اور کہا کہ ان کے استعفے غیر قانونی طور پر منظور کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محترم اطہر من اللہ نے ان سے کہا کہ وہ کیوں عوامی نمائندگی کا فرض پورا نہیں کر رہے۔ عوام نے ان کو ووٹ دیکر اس لئے منتخب کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر انکے حقوق کا دفاع کریں اور قانون سازی کریں مگر وہ مستعفی ہو کر ایوان سے باہر بیٹھے ہیں۔ جو اراکین مستعفی ہوکر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر رہے ہیں انکے پاس کوئی اخلاقی سیاسی جمہوری اور آئینی جواز نہیں ہے۔ اور انکے حلقوں کے عوام اپنے نمائندوں کے اس غیر جمہوری رو یے پر سخت نالاں ہیں جس کا اندازہ اراکین پارلیمنٹ کو اگلے انتخابات میں ہو جائیگا۔ پاکستان میں جو شخصیات پارلیمنٹ کی بالادستی کی علمبردار ہیں اور انکی جانب سے آئے روز پارلیمنٹ کی بالادستی کے سلسلے میں بیانات جاری کیے جاتے ہیں کیا وہ عوام کو جواب دہ نہیں ہیں کہ وہ بتائیں کہ عوام کے منتخب نمائندے خود پارلیمنٹ کی بالادستی کا کیا احترام کر رہے ہیں۔ ایک سینئر تبصرہ نگار کا یہ خیال ہے کہ صدر پاکستان کو اراکین پارلیمنٹ کے رویہ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے تاکہ پاکستان میں ایک صحت مند اور خوشگوار جمہوری روایت قائم ہو سکے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف کے راہنما عمران خان کا موجودہ سیاسی رویہ کسی بھی حوالے سے سے آئین اور جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان کرکے پورے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پہلے ہی دیوالیہ پن کا شکار پاکستان کی معیشت ان کے لانگ مارچ کی وجہ سے مفلوج اور منجمد ہو چکی ہے۔ انکی قومی اور عوامی مفاد کے بر عکس غیر جمہوری سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے آنیوالا مورخ انہیں اچھے لفظوں سے یاد نہیں کریگا۔
عمران خان فوری انتخابات کا کا مطالبہ کر رہے ہیں اور پاکستان کے عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ انتخابات کے بعد صورتحال کیسے تبدیل ہو سکے گی ۔ سیاسی استحکام کیسے آئیگا۔ انکے پاس معیشت کو درست کرنے کیلئے کونسی حکمت عملی ہے جس پر عمل کرکے وہ معاشی استحکام پیدا کردینگے۔ ان کی آڈیو لیکس نے انکی سیاسی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں ۔ عوام حیران ہیں کہ ایک ایسا لیڈر جو اخلاقیات کے اعلیٰ معیار پر کھڑا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ اس قسم کی گفتگو کیسے کر سکتا ہے جو آڈیو لیکس کے ذریعے منظر عام پر آئی ہے۔ انتہا پسندی پر مبنی سیاست سے جو اشتعال پیدا ہوا ہے اس نے نہ صرف پاکستان کے عوام کو مضطرب اور بے چین کررکھا ہے بلکہ ریاست کے مقتدر ادارے بھی اس سلسلے میں گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ کے محترم جج گاہے بگاہے اپنے ریمارکس میں سیاستدانوں کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے سیاسی مسائل پارلیمنٹ کے اندر ہی حل کرنے چاہئیں۔ پاکستانی قوم کی تشویش کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے سپہ سالار نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کسی صورت خوفزدہ نہ ہوں۔ کسی غیر ملکی طاقت تنظیم یا گروہ کو عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ پاکستان کی قومی سلامتی اور آزادی کی خاطر پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان نے بھاری جانی و مالی قربانیاں دی ہیں ان قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا جائیگا۔ پاکستان کے سپہ سالار نے پاک فوج کے جوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ جمہوری اداروں کی عزت کریں ملکی سلامتی ،آئین کی پاسداری کیلئے اپنی جانوں کی قربانی دینے سے دریغ نہ کریں ہر قسم کی سازشوں کا آئینی ہاتھوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں ۔ پاک فوج کو قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے گزشتہ دو دہائیوں میں پاک فوج نے عوام کے ساتھ مل کر قومی سلامتی کی کامیاب جنگ لڑی ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو سپہ سالار کے اس خطاب پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے ۔