کبیرا تیری جھونپڑی
اہلِ دانش کے فلسفہ حیات کے تحت جب آج رات میں اپنا احتساب کرنے بیٹھا تو مجھے اپنے آپ پر اس وجہ سے شدید غصہ آیا کہ میری سوچیں کیوں اسقدر محدود ہو گئی ہیں کہ مجھے پچھلے خاصے عرصہ سے سیاست کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے کی توفیق ہی نہیں ہو رہی حالانکہ اس دوران پچھلے چار ماہ سے میرے ملک اور اس کے عوام پر کیسی کیسی قیامتِ صغریٰ ٹوٹی ہے ۔پلک جھپکتے سیلابی ریلوں نے کس بیدردی کے ساتھ ہنستے بستے گھرانوں پر شامِ غریباں کے اندھیرے سائے کر دیے، وقت کا جبر، جو لوگ دوسروں کیلئے اناج کا ذریعہ اور وسیلہ تھے وہ آج بذات خود اناج کے ایک ایک دانہ کو ترس رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی ستر فیصد آبادی اس سیلاب کی ہولناکیوں سے متاثر ہوئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اسی عرصہ کے دوران ڈالر ملکی معیشت کو اسطرح کھا گیا جیسے کوئی اژدہا اپنی واردات ڈالتا ہے۔ اخلاقی بدحالی کی انتہا اس طرح محوِ سفر ہے کہ خواتین سے زیادتی ایک طرف اب چار چار اور چھ چھ سال کے بچے بھی محفوظ نہیں۔
مہنگائی اسقدر آسمانوں کو چھو رہی ہے کہ یہ لکھتے شرم آتی ہے کہ سفید پوش اور باعزت گھرانے اب پیٹ پالنے کیلئے سر شام چوراہوں میں اپنی عزت بیچنے نکل پڑے ہیں۔ لیکن آفرین کہیے ہم لوگوں کو کہ قیامت کی ان گھڑیوں میں بھی مجھ سمیت اکثریت نے سیاست سیاست کے کھیل اور اس پر ہی بات کرنے کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہوا ہے۔ نوحہ خانی کے ان کلمات میں راقم اپنے سمیت صرف سیاسی اشرافیہ کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا کافی نہیں سمجھتا بلکہ یہ کہنے کی جْرأت کر رہا ہے کہ اخلاقی بدحالی کے اس سفر میں ہماری انٹلیکچول کلاس، ہماری سول سوسائٹی کے نام نہاد علمبردار اور سب سے بڑھ کر ہمار ے عوام کا بھی اس قحط الرجال میں بہت بڑا کردار ہے۔کہتے ہیں کہ قوموں کی اکثریت جب بے حسی کی ان انتہاؤں کو چْھو لیتی ہے تو پھر ان کی بقاء بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ صاحب فکر لوگوں کے نزدیک یہ ساری صورتحال اس وقت پریشان کْن تو ہے ہی لیکن ڈر یہ ہے کہ آگے چل کر یہ مزید بھیانک صورتحال اختیار کرتی نظر آ رہی ہے جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے انٹلیکچولز نے آج تک نہ کبھی کوئی ایسی بات کی ہے اور نہ کبھی ایسے میکنزم پر کوئی تحقیق کی ہے کہ ایک عام آدمی کی کس طرح ذہنی تربیت کی جائے کہ بیشک اس کی علمی قابلیت اتنی نہ ہو کہ اسے صاحب علم کا درجہ دیا جائے لیکن کم از کم اس میں اتنا شعور پیدا کر دیا جائے کہ وہ یہ سمجھ سکے کہ اسکے حقیقی مسائل کیا ہیں اور وہ کونسی قوتیں ہیں جو اسکے مسائل کو حل کر سکتی ہیں اور وہ اسقدر ذہنی بیدار ہو کہ اْسے بازاری منجن بیچنے والے اور ایک حقیقی لیڈر کے درمیان فرق کا پتہ ہو ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ان پڑھ طبقہ تو ایک طرف اچھا بھلا پڑھا لکھا طبقہ بھی سیاسی شعبدہ بازی کا اسطرح شکار ہوا ہے اور اْس پر شخصیت پرستی کا ایسا جادو چلا ہے کہ بْت پرستی کے دور کی داستانیں بھی اب انکی قصیدہ خوانی پر شرمندہ نظر آتی ہیں۔ کسی وابستگی سے ہٹ کر اگر اس مرض کا جائزہ لیا جائے تو اس میں آپ کسی ایک فریق کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے، تنزلی کے اس سفر میں جس فریق سے جتنا ہو سکتا ہے وہ اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
ظلم یہ ہے کہ ہمارے یہی نام نہاد سکالرز اور انٹلیکچول سارا دن الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیٹھے انہی منجن فروشوں کے ایجنڈا اور چورن کو فروخت کرتے ہوئے عوام الناس کی ذہن سازی میں لگے ہوئے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ جن کی ناقص پالیسیوں کی بنا پر عوام لْٹ رہے ہیں اْنہی کے گیت گا رہے ہیں اور انہی کے جلسوں میں شرکت کر رہے ہیں اور ذہنی پستی کی اْن انتہاؤں پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ہمیں اپنی محرومیوں پر ماتم کرنا ہیں وہاں ہم ایک طرف ان دھنوں پر ’’اج میرا جلسے وچ نچنے نوں دل کردا’’تو دوسری طرف ‘‘۔نعرے وجن گے’’ میں مشغول ہیں۔
پنجابی کا ایک محاورہ ہے ’’ کبیرا تیری جھونپڑی گل کٹوں کے پاس ، جو کرن گے سو بھرن گے توں کیوں پھریں اُداس ‘‘۔ یقین جانیئے جب تمام مکاتب فکر اور خصوصی طور پر عوام الناس کے ان روئیوں کو دیکھ رہا ہوں تو بھگت کبیر کے اس قول کے تناظر میں اپنے آپکو تسلی دینے کو دل چاہ رہا ہے اور ساتھ اپنے آپکو ایک سوال کرنے کو بھی دل کر رہا ہے کہ تم کیوں اتنا کْڑھ رہے ہو ،تو پھر اندر سے ایک آواز آتی ہے شائد اس لیے کہ اپنے اندر ایک سچا پاکستانی بیٹھا ہوا ہے جس کے ساتھ ہی ان لمحات میں وہی سچا پاکستانی کہہ رہا ہے کہ اپنی ذات سے باہر نکلو۔ پاکستان کے بائیس کروڑ میں سے اکیس کروڑ نوے لاکھ نوے ہزار سچے پاکستانی ہیں بس ان کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے انہیں سمجھاؤ کہ میرا بابا تیرا بابا اور آڈیو لیکس اور وڈیو لیکس کی جستجو سے باہر نکلو اور اپنے حقیقی مسائل کی تلاش کی طرف توجہ دو۔ ان موبائل فونز اور انٹرنیٹ کو ان سیاسی شعبدہ بازوں کی سوشل نیٹ ورکنگ اور کمپین کی بجائے اپنی ریسرچ کیلئے استعمال کرو۔ دنیا نئی سے نئی ٹیکنالوجی کے حصول کی جستجو میں لگی ہے آپ بھی اس دوڑ کا حصہ بنو۔ نئی دوڑ میں ایسا وقت آنیوالا ہے جب انسان بذات خود ایک فالتو اکائی کی حیثیت اختیار کر جائے گا کیونکہ اس کے سارے کام جو وہ خود اپنے لیے یا دوسروں کیلئے کرتا ہے وہ ٹیکنالوجی کیا کریگی۔ بس یہی ایک مقام ہے جسکی طرف ہم اب بھی متوجہ نہ ہوئے تو پھر کبھی نہیں۔