بدھ ، 15 ربیع الاول 1444ھ، 12اکتوبر 2022ء
لاہور میں غلط پارکنگ پر گاڑیوں کو 2 ہزار جرمانہ شروع
دیکھتے ہیں اس سے غلط پارکنگ پر کتنااثر پڑتا ہے۔ ورنہ کیا ٹریفک پولیس نے کبھی ضلع کچہری سیکرٹریٹ تا ناصر باغ، داتا دربار، سمن آباد کار شو رومز، جیل روڈ ، مال روڈ، فیروز پور روڈ، ملتان روڈ نیازی اڈہ، لاری اڈہ جیسے اہم گنجان آباد علاقوں میں سڑکوں پر ناجائز پارکنگ ایریاز بنانے والے مافیاز نہیں دیکھے تھے۔ ہر سڑک پر تین قطاریں دائیں تین بائیں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں اور سڑک پتلی گلی بن جاتی ہے۔ ان ظالموں نے تو سروس روڈز تک پر قبضہ جما لیا ہے کسی کو یاد نہیں کہ یہ سروس روڈ ہے۔ پارکنگ سٹینڈ نہیں۔ خاص طور پر عدالتوں کچہریوں کے باہر تو پیدل چلنا دوبھر ہو چکا ہے۔ موٹر سائیکل یا گاڑی کا گزرنا وہاں ممکن نہیں۔ پولیس والے وکیل ٹریفک وارڈنز تو خود کو ہر قانون اور اصول سے مبرا تصور کرتے ہیں۔ کیا مجال ہے ان پر ٹریفک پارکنگ سمیت ٹریفک کا کوئی قانون لاگو ہوتا ہو۔ اب دو ہزار جرمانے کے بعد تو لاہور میں ’’گلیاں ہو جان سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ والی حالت ہو جانی چاہیے۔ مگر آپ بھی یہاں ہیں ہم بھی ایسا کچھ نہیں ہونے کا۔ یہ سب غریب عوام پر جرمانہ بم گرانے کا طریقہ ہے جو ایک یا دو منٹ کے لیے گاڑی پارک کرتے ہیں۔ باقی سب شو رومز والے۔ دکاندار اور بااثر مافیا من مانی کرتا آیا ہے کرتا رہے گا۔ کون ہے جو ان سے 2 ہزارروپے جرمانہ وہ بھی فی گاڑی وصول کرے۔ اگر سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو تو بات بنے گی ورنہ وہی غلط پارکنگ کے تماشے پہلے بھی لگتے تھے اب بھی لگتے رہیں گے۔ کیوں کے ان کی سرپرستی کرنے والے تگڑے لوگ ہیں۔
٭٭٭٭
اسرائیلی عدالت نے سابق وزیر اعظم کو کزن سے تحفے میں لی رقم واپس کرنے کا حکم
یہ وہ ملک ہے جسے ہم اپنا سب سے بدترین دشمن کہتے ہیں۔ اس سے شدید نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے۔ مگر اپنے ملک کے لیے دیکھ لیں ان کے قاعدے اور قانون کتنے سخت ہیں۔ وہ چاہے حکمران ہوں یا عوام کسی کو قانون سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے برعکس دن رات اسرائیل کو برا بھلا کہنے والے ممالک میں دیکھ لیں نہ کوئی قانون ہے نہ قاعدہ۔ یہاں حکمران ملنے والے تحائف کو بھی ذاتی جاگیر سمجھ کر ہڑپ یا یوں کہہ لیں شیر مادر سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سوچ یہ ہے کہ تحائف انہیں ذاتی طور پر ملے ہیں جبکہ ایسی احمقانہ سوچ کسی اور ملک میں پائی نہیں جاتی وہاں اسے سرکاری توشہ خانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔ اب اسی ناس پیٹے اسرائیل کو دیکھ لیں وہاں کے وزیر اعظم کو اس کے کزن کے 3 لاکھ ڈالر تحفے میں دئیے۔ یہ بھی وہاں کی عدالتوں کو ہضم نہیں ہوئے اور عدالت نے یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ اب سابق وزیر اعظم یہ رقم جمع کرا رہے ہیں جبکہ ہمارے حکمران یہ تحفے خود رکھ لیتے ہیں۔ بیچ کر کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں مارتے۔ کیا اچھا ہو ہماری کوئی عدالت بھی یہ تمام تحائف سب حکمرانوں سے واپس لے کر سرکاری توشہ خانہ یعنی مال خانے میں جمع کرائے۔ جب ایک مغضوب قوم ایسا کر سکتی ہے تو ہم مومنوں کو ایسا کرنے میں کونسی رکاوٹ ہے۔
٭٭٭٭
اسسٹنٹ کمشنر پیر محل پر تشدد ملزم وکلا نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی
وکلا گردی اب ایک اصطلاح بن چکی ہے۔ جیسے پولیس کلچر ایک منفی اصطلاح کی شکل اختیار کر چکا ہے، اب ویسے ہی وکلا گردی بھی منفی معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ نجانے کیوں وردی والا ہر شخص خود کو ہر قسم کی پابندی سے اس طرح مبرا سمجھتا ہے جس طرح ماضی میں بدنام انگریزی، پنجابی، اردو اور پشتو فلموں کے اشتہارات اور سائن بورڈز پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا ’’سنسر کی پابندیوں سے آزاد صرف بالغان کیلئے‘‘ اسی طرح یہ کالے کوٹ والے بھی جن عدالتوں سے وابستہ رہتے ہوئے رزق کماتے ہیں۔ جہاں جج لگنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے بروئے کار لاتے ہیں۔ انہی عدالتوں میں ذرا ذرا سی بات پر معزز جج صاحبان سے بدتمیزی کی تمام حدیں پھلانگتے ہیں۔ ججوں سے مار پیٹ بھی اب عام ہو چکی ہے۔ پیر محل میں انہی ہتھ چھٹ کوٹ والوں نے جس طرح اسسٹنٹ کمشنر کو زد وکوب کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب دیکھنا ہے بیوروکریسی اسے خود پر حملہ تصور کرتے ہوئے احتجاج کرتی ہے یا خاموشی سے مار کھا کر تماشہ دیکھتی ہے۔ ویسے اب اس ہنگامہ خیز صورتحال پر قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر ادارے کا احترام سب پر فرض ہے وردی یا کوٹ کے زعم میں خود کو بالاتر سمجھنا غلط سوچ ہے اس طرح تو ایک مافیا جنم لیتا ہے جو پھر غنڈہ گردی سے اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلے ہی کیا مافیاز ہمارے ملک میں کم ہیں جو اب یہ بھی جڑ پکڑ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
سہراب گوٹھ اور سرجانی ٹائون نوگو ایریا بن چکے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ
سچی بات تو یہ ہے۔ پورا کراچی ہی نوگو ایریا بن چکا ہے۔ جہاں قدم قدم پر جرائم پیشہ افراد سرعام لوگوں کو لوٹتے، قتل اور اغوا کرتے پھرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے وہاں سر جھکا کر خاموشی سے یوں گزر جاتے ہیں گویا ’’جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں‘‘ اب سہراب گوٹھ ہو یا سرجانی ٹائون۔ وہاں قبضہ مافیا نے قیامت مچائی ہوئی ہے تو باقی کراچی شہر میں کونسی شانتی ہی شانتی رقص کر رہی ہے۔ ہر قدم پر ایک سے بڑھ کر نئی کہانی منتظر سماعت ہے۔ بااثر افراد نے جس طرح کراچی کو بدحال اور نڈھال کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ کہیں زور زبردستی سے کہیں سرکاری رشوت سے اور کہیں چاپلوسی کرکے تحفے میں لاکھوں ایکڑ اراضی بااثر شخص سے لے کر ارب پتی ہائوسنگ سوسائٹیوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئی ہیں۔ یہاں انڈسٹریل ایریا کا رونا کون روئے۔ اب سندھ ہائی کورٹ نے کتنی تلخ بات کہی ہے کہ ’’میں اور آپ وہاں نہیں جا سکتے‘‘ تو پھر کس سے شکوہ کریں ۔ کس سے شکایت کریں۔ یہاں تو قدم قدم پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ حکومت سندھ ہو یا کوئی اور ادارہ جو بھی اس قبضہ مافیا کی سرپرستی کر رہا ہے اب ان کی لگام کھینچ کر لینڈ مافیا کے حلق میں ہاتھ ڈال کر چھینا گیا نوالہ نکالنا ہو گا تاکہ عوام کو تسلی ہو کہ ان کی بھی سنی جا رہی ہے۔ ورنہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری اراضی اسی طرح چھینی جاتی رہے گی۔