زندگی رولر کوسٹر کی طرح ہے
قارئین آپ نے بچپن میں خوب اچھی طرح رولر کوسٹر جو کہ میلے میں ایک پنگھوڑا نما ریلوے ٹریک ہوتا ہے اس میں ہر قسم کے لوگ جن میں خصوصی طور پر بچے اور نو عمر جھولے لیتے ہیں۔ اس میں اونچائی بھی ہوتی ہے اوراچانک ٹرن آتے ہیں، عمودی چڑھائی اور ڈھلوان نما سلوپ ہوتی ہے۔ منحنی خطوط اور تیزی سے اچانک موڑ آتے ہیں اونچائی اور گہرائی کافی تیزی اور اچانک آتی ہے آپ دیکھیں گے کہ کچھ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں اور کچھ خوفزدہ ہو جاتے ہیںیہ اسکے اوپر بیٹھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے یا خوفزدہ ہو کر چیخنا چلانا شروع کردیتا ہے۔ زندگی بھی ایک طرح کی رولر کوسٹر کی طرح ہے،جس میںکبھی بلندی پر انسان پہنچ جاتا ہے تو کبھی کھائی میں جا گرتا ہے لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ لطف اندوز ہوتا ہے یا ڈر کے مارے چیخنا شروع کر دیتا ہے۔
زندگی میں بھی انسان جذباتی طور پر رولر کوسٹر ہی کی طرح پر زندگی گزارتا ہے کیا وہ اس کوایک ضیافت خیال کرتا ہے یا ایک آزمائش۔ لیکن ہر حال میں اس کو دنیا میں آنے کے بعد چاہے جیون زہر ہو ، پی کرگزارنا ہی پڑتا ہے بھنور سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔ اونچائی کی طرف جاتے ہوئے لطف اور خوشی محسوس کرتا ہے جبکہ تیزی سے ڈھلوان کی طرف آتے ہوئے اسکی سانس تک رک جاتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ خطرات مول نہیں لے گیں سو آپ ایک پر امن زندگی گزارسکیھیں گے جس میں بظاہر سکون اور کوئی آزمائش نہیں ہوگی لیکن زندگیگزر تو جائیگی لیکن بے لطف ، بے مزہ، بے کیف۔ بغیر آزمائشوں کے ، بغیر خطرات مول لینے کے، اس شخص کو کوئی شکست نہیں ہو گی لیکن اس شخص کو کوئی بڑی فتح یا قابل ذکر بڑی کامیابی بھی نہ ملے گی۔ بھرپور زندگی سے خالی زندگی ایک تکلف سے زیادہ کچھ نہیں، صبح ہوئی شام ہوئی اور پھر اگلا دن پہلے دن کی طرح کی نقل ۔ شکست بری ثابت ہوتی ہے لیکن کوشش ہی نہ کرنا سب سے بڑی شکست ہے۔ نتیجہ سے بے نیاز ، کوشش کرنا ہی زندگی ہے ۔ آج آپ عمران خان کو ستر سال کر عمر میں رسک لیتے ہوئے ، روزانہ پسینے میں بھیگ کر جلسے کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسکی عوامی شہرت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح تاریخ میں بڑی قربانیاں دینے والوں کے تذکروں سے تاریخ بھری ہے نہ کہ بقول نپولین، بغیر شہرت کے مر جانا نا پیدا ہونے کے مترادف ہے۔ قائداعظم ، محتر مہ فاطمہ جناح ، ذوالفقار علی بھٹو کے زندگی کے ایک گھنٹے ہمارے جیسے لوگوں کی پوری زندگی پر بھاری ہوتے ہیں۔واٹر گیٹ سکینڈل سے مشہور امریکی صدر نکسن ،تھیوڈور ، فرینکلن روز ویلٹ برطانیہ کے چرچل،فرانس کے نپولین، سکاٹ لینڈ کے لئے سرکٹانے والے والس،اسلامی دنیا میں خود آنحضورؐ نے اپنی بیماری کے ایام میں خود مسجد نبوی میں جا کر شدید درد اور تکلیف میںبھی اسامہ بن زید کو جہادی جذبہ سے سرشار ہو کر لشکر لے کر جانے پر اصرار جاری رکھااور اسکی نوعمری کی مخالفت کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی، اس سے پیشترجنت البقیع اور میں جنگ احد کے شہدا کیلئے دعا فرماتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھے رہ گئے ہیں ورنہ اس دنیا میں جھگڑے، اختلاف رائے ،نزاع رنجشیں ایسے ہی ہیں جیسے اندھرے کی ایک لہر کے پیچھے دوسری لہر آنے کو بیقرار ہوتی ہے۔ ایسے ہی حضرت خالد بن ولیدؓ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت علیؓ جیسے تما م کے تما م جانی خطرات سے کھیلنے والے ہزاروں شہدا اور غازی تھے۔زندگی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر صرف سٹڈی کا نام نہیں یا گھر میں فلم بینی یا موسیقی سننے تک محدود نہیں حضور یہ نام ہے مر مر کے جئے جانے کا۔ہمارے تونبیؓ نے صرف تیرہ سالوں میں تراسی جنگوں کی بلواسطہ یا بلا واسطہ قیادت فرمائی۔ انگریز پادری تھامس ایکوئنس نے سات صدی قبل یہ ویسے تو نہیں کہا ہو گا کہ سمندر کے تلاطم میں اگر جہاز کے کپتان کا صرف یہی منشا و مقصد ہو کے اس کاجہاز کامحفوظ رہے، تو پھر اسے اپنے جہاز کو ہمیشہ کیلئے بندرگاہ سے نکالنا ہی نہیں چاہئے۔ خطرات کو مول لیتے وقت یہ سوچنا کے کتنے نقصانوں کا سامنا کرنے پڑیگا، ایسے لوگ اپنے مقاصد کو ہر گز اپنی زندگی کا مقصد نہیں سمجھتے۔ چھوٹی جنگوں کو ہارنا ضروری ہے بڑی بامقصد جنگوں میں کامیابی کیلئے۔ چھوٹی رنجش یا چپقلش میں الجھنے والے ہر گز رسک ٹیکرز نہیں کہلاتے بلکہ بیوقوف قرار پاتے ہیں۔