علوی نامہ
کل صبح سے سہ پہر تک گھٹا چھائی رہی، کچھ بارش بھی ہوئی۔ یہ جاڑوں کا سندیسہ تھا کہ تیاری پکڑ لو، ہم آ رہے ہیں۔ گزری صدی میں اکتوبر سردیوں کا مہینہ ہوا کرتا تھا۔ اسمعٰیل میرٹھی فرما گئے
گیا ستمبر آیا جاڑا
سردی نے اب جھنڈا گاڑا
چار طرف بستی کے دیکھا
پھیلا سب میں ایک دھواں سا
لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جاڑا جھنڈے گاڑے گا لیکن کہیں دسمبر میں جا کر اور وہ کہرا نام کا سرمئی مائل سفید دھواں شہروں میں تو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ہاںچھوٹے شہروں، قصبوں، دیہات میںنظر آتا ہے اور کتنے ہی بیتے ہوئے سرد موسموں کی یاد دلاتا ہے لیکن یہ کہرا بھی دسمبر جنوری میں ہی آئے گا۔ موسم کی سختی کا غربت سے خاص ناتا ہے لیکن چلئے، یہ تو الگ موضوع ہے۔ فی الحال سیاست کی گرمی کا موسم ہے لیکن آثار ہیں کہ کچھ نئی تگ و تاز کہرے کی نذر ہوتی جا رہی ہے۔
__________
صدر عارف علوی کے ارشادات نے ہلچل سی مچا دی ہے لیکن براہ کرم یہ مت کہیئے کہ انہوں نے عمران خان ، اپنے قائد کی امریکی سازش والے بیانئے کی مٹکی پھوڑ ڈالی ہے۔ اس لئے کہ یہ مٹکی تو خود خان صاحب کی اپنی آڈیو لیک نے پھوڑ کر رکھ دی تھی۔ اس لیک میں جو گفتگو ہوئی، لب لباب اس کا یہ تھا کہ سفارت کار کے بھیجے ہوئے سائفر کو سازش کا رنگ کیسے دینا ہے، منٹس کیسے اپنی مرضی کے بنانے ہیں اور پھر کیسے اس کے ساتھ کھیلنا ہے۔
پھر تو خوب کھیلے لیکن اس بات سے بے خبر رہے کہ خود ہی کھلواڑ بن کے رہ جائیں گے اور آڈیو لیکس کے بعد یہ ہوا۔ اب صدر عارف علوی نے اپنے انٹرویو میں ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے اس بات سے اتفاق نہیں کہ امریکہ نے سازش کی تھی۔ شکوک و شبہات تھے اس لئے سپریم کورٹ کو خط لکھا تاکہ بات صاف ہو جائے۔
علوی صاحب نے پھوٹی مٹکی کے ٹھیکرے بنا دئیے ہیں۔ ٹھیکروں میں بھیک دی یا لی جاتی ہے اور انہیں ٹھیپا بنا کر کھیلا بھی جاتا ہے، اب دیکھئے، خان صاحب ان ٹھیپوں سے کیسے کھیلتے ہیں، کہیں ٹھیپو ٹھیپی ہی نہ ہو جائیں۔
__________
عارف علوی پی ٹی آئی کے معمولی نہیں، غیر معمولی رہنما ہیں۔ بہت سی اہم مہمات کے سرخیل وہی تھے۔ 2014ءمیں خان صاحب نے پی ٹی وی کی فتح کے لیے جو جہادی دستہ بھیجا تھا، اس کے امیر الجیش علوی صاحب ہی تھے۔ تب بھی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں علوی صاحب نے عمران خان کو فتح کی خبر دی تھی۔ حال ہی میں معافی تلافی کے لیے بھی اہم کردار علوی صاحب نے ادا کیا لیکن یہ مشن ناکام رہا اور خان صاحب کی اس مایوسی میں اضافہ ہوا جس نے ، بقول علوی صاحب، خان صاحب کو اپریل کے بعد سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ علوی صاحب نے دراصل فرسٹریشن کا لفظ استعمال کیا جس کا ترجمہ مایوسی کافی نہیں، اصل ترجمہ مایوسی سے کچھ بڑھ کر طاری ہونے والی کیفیت ہے۔ مایوسی محض ایک کیفیت ہے، فرسٹریشن کو مغرب میں ایک ”مرض“ مانا جاتا ہے۔ پچھلے ہفتے فرسٹریشن کے ایک مریض نے تھائی لینڈ کے سکول میں گھس کر 23 بچوں سمیت /31 افراد کو قتل کر دیا خیر، علوی صاحب جیسے قیمتی ”اثاثے“ کی طرف سے خان صاحب کی اس پھوٹی مٹکی کا مزید تیا پانچا پی ٹی آئی والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ دیکھئے، ان کی طرف سے کیا ردّعمل آتا ہے۔ شاید کچھ اس قسم کی ہدایت بھی متوقع ہو سکتی ہے کہ ارسلان بیٹا، علوی کو بھی غداری سے ٹیگ کر دو۔
__________
علوی صاحب نے یہیں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ نیوٹرل کو جانور کے ہم معنے ماننے سے بھی انکار کر دیا اور فرمایا کہ اداروں کو نیوٹرل ہی ہونا چاہیے۔
خان صاحب نے نیوٹرل کا ترجمہ پہلے تو جانور کیا، پھر مشرک بھی قرار دے ڈالا۔ ان کا فتویٰ ہے کہ ان کی حقیقی آزادی کی جنگ دراصل حق و باطل کا معرکہ ہے جس میں وہ حق ہیں اور باقی سب باطل اور جو بھی ان کی حمایت نہ کرے، وہ مشرک ہے۔
علوی صاحب نے ان کی یہ تشریح بھی مسترد کر دی ہے۔ امید ہے پی ٹی آئی کے احباب علوی صاحب کے ارشادات کا معقول جواب دیں گے، ایسا جواب جو دل کو لگے، نہ کہ ایسا جواب جو دل لگی کا سامان بن جائے۔
__________
شوکت ترین، عمران خان کے وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف سے پاکستان کو قسط کا اجرا ءرکوانے کی ناکام مہم کے غازی، ایک ٹی وی پر یہ کہتے سنے گئے کہ اسحاق ڈار ڈالر کی پٹائی کر رہے ہیں۔ ان کا اشارہ ڈالر کی مسلسل کم ہوتی ہوئی قیمت کی طرف تھا جو گرتے گرتے اب 217،218 تک پہنچ گیا ہے۔
اب پتہ نہیں ترین صاحب ڈار صاحب کو داد دے رہے تھے یا ڈالر پر ہونے والے ظلم کیخلاف دہائی دے رہے تھے۔
برسبیل تذکرہ، ڈالر کا حقیقی آزادی کی جنگ سے کیا رشتہ ہے؟ یہ سوال یوں ذہن میں آیا کہ ڈالر پر جوں جوں سختی آ رہی ہے، تینوں پیڑ ہووے میںہوکاں والا معاملہ ہے۔ شاید کوئی ”رحونیاتی رمز“ ہو۔
مزید برسیل تذکرہ یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اتنی کمی آنے کے باوجود عوام کو ذرا سا بھی ریلیف کیوں نہیں مل رہا؟۔مفتاح بھائی اسمعٰیل بھائی عرف کلہاڑا بھائی ، گنڈاسا بھائی کب کے رخصت ہو گئے لیکن عوام پر وار بدستور جاری ہیں۔
__________
گھی منڈی میں 50 روپے کلو تک سستا ہو گیا لیکن یہ تو قیمت کی وہ کمی ہے جو ڈالر کی شرح گرنے سے واقع ہوئی، پام آئل عالمی منڈی میں دوتہائی سستا ہو گیا، اس کا اثر کہاں ہے؟۔
پام آئل 600 کا تھا تو پاکستان میں گھی ڈیڑھ سو روپے کلو تھا۔ بڑھ کر 1900 روپے ہو گیا تو یہاں بھی گھی تین گنا بڑھ کر چھ سو 50 روپے کلو ہو گیا۔ اب پام آئل پھر سے عالمی منڈی میں 600 روپے کا ہو گیا ہے تو یہاں بھی واپس ڈیڑھ سو کلو کا مہیا ہو جانا چاہیے؟۔ لیکن یہاں تو ایک روپیہ بھی سستا نہیں ہوا، جو سستا ہوا، وہ ڈالر سستا ہونے کی وجہ سے ہوا۔
وزیر اعظم کے لیے عوامی مسائل کسی دلچسپی کے حامل ہیں نہ توجہ کے قابل ۔ ایسا ہی لگتا ہے۔ بلاول بھٹو سے اپیل کی جا سکتی ہے کہ وہ توجہ فرمائیں۔ وہ امورِخارجہ کے وزیر ہیں اور پام آئل کی عالمی ”سستائی“ بھی خارجہ ہی کا معاملہ ہے، اس لئے ....!
__________