نیوز سائیکل پر اصل مسائل سے لاتعلقی
صحافتی زبان میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے:News Cycle۔مجھے اس کا اردو متبادل معلوم نہیں۔سادہ زبان میں یوں کہہ لیں کہ وہ موضوعات جو دن کے 24گھنٹوں کے دوران روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی رہتے ہیں۔عموماََ یہ موضوعات انسانی جبلت میں موجود سنسنی خیزی ،چسکے یا غیبت سے جڑی خواہشات کو تسکین فراہم کرتے ہیں۔
”خبر“ پہنچانے کا دھندا جب تک اخبارات تک محدود رہا صحافی ایسے موضوعات سے گریز کو ترجیح دیتے تھے۔بنیادی وجہ اس کی ”اصولی“ نہیں اقتصادی تھی۔ اخبارات خرید کر پڑھنے والوں کی بے پناہ اکثریت کا تعلق نسبتاََ خوشحال متوسط طبقے سے ہوا کرتا تھا۔ وہ ”سنجیدہ“ موضوعات کے طلب گار تھے۔ان کی قوت خرید کو نگاہ میں رکھتے ہوئے کاروباری ادارے ایسے اخبارات کو اشتہارات فراہم کرنا لازمی شمار کرتے تھے جو ”سنجیدہ“ تصور ہوتے تھے۔
”سنجیدہ“ اخبارات کے اجارہ کو توڑنے کے لئے برطانیہ جیسے ممالک میں Tabloidرونما ہوئے۔نسبتاََ غریب آدمی بھی انہیں بآسانی خرید سکتا تھا۔یہ اخبارات عموماََ ایسے سکینڈلز سے بھرے ہوتے جو عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور اجاگر کرتے کہ شاہانہ رعب داب کے ساتھ ان پر حکمران ہوئی اشرافیہ کے لوگ ”اصل“ میں کیا کرتے ہیں۔ان کے معاشقوں اور گھریلو زندگی سے جڑی کہانیاں چسکے کا تڑکا بھی لگادیتیں۔ ”سنجیدہ“ افراد ان اخبارات کو ”گٹر پریس“ پکارتے ہوئے حقارت سے نظرانداز کردیتے۔
رواں صدی کے آغاز سے ایک دہائی قبل مگر انٹرنیٹ ایجاد ہوگیا۔ اس کے اولیں ایام میں اسے بڑے کاروباری ادارو ں سے وابستہ افراد ہی استعمال کرسکتے تھے۔ بعدازاں مگر موبائل فون تقریباََ ہر شخص کے ہاتھ آگیا۔ وہ انٹرنیٹ سے منسلک ہوا تو فیس بک ،ٹویٹر،انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسی ایپس بھی منظرعام پر آگئیں۔ ”خبر“ پر اس کی وجہ سے ”صحافیوں“ کا اجارہ برقرار نہ رہا۔ہمیں ”ہر لمحہ باخبر“ رکھنے کے دعوے دار ٹی وی چینل بھی اس ہیجان کی نقالی میں مصروف ہوگئے جو مذکورہ ایپس کو مقبول بنارہا تھا۔
”خبر“ کے لئے اب کسی بھی صارف کو صبح آئے اخبار کی ضرورت نہیں رہی۔ ٹویٹر کے ذریعے بے تحاشہ ایسی ”بریکنگ نیوز“ سرعت سے نمودار ہوتی رہتی ہیں جنہیں ”پھوڑنے“ کے لئے جدید ترین ٹی وی نیٹ ورک کو بھی تکنیکی وجوہات کی بنا پر کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے سیاستدانوں کی اکثریت ”نیوزسائیکل“ میں ہوئی حیران کن تبدیلیوں کی بابت لاتعلق رہی۔ برطانیہ اور امریکہ میں تاہم بورس جانسن اور ٹرمپ جیسے ”نابغے“ نمودار ہوگئے۔ انہوں نے انسانی جبلت میں موجود تعصبات کو مزید بھڑکانے کے لئے ہیجان خیز ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کردئے۔ لوگوں کی توجہ کا مسلسل مرکز بنے رہنا ایسے سیاستدانوں اور ان کے چاہنے والوں کی کلیدی ترجیح ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں عمران خان صاحب اورا ن کی جماعت نے ان کی اپنائی حکمت عملی کو بہت مہارت سے اپنا”بیانیہ“فروغ دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔ان کے مخالف ابھی تک اس کا توڑ نہیں ڈھونڈ پائے ہیں۔
بدھ کی رات سونے سے قبل میں نے طے کرلیا تھا کہ جمعرات کی صبح اٹھتے ہی عالمی اداروں کی جانب سے تیار ہوئی ان رپوٹوں کو زیر بحث لایا جائے جو پریشان کن خبر یہ دے رہی ہیں کہ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہوجانے کے بعد عالمی منڈی میں تیل اور غذائی اجناس کا جو بحران رونما ہوا ہے وہ پاکستان جیسے کم از کم پچاس سے زیادہ ممالک کو آئندہ کئی برسوں تک پریشان رکھے گا۔ بازار میں مسلسل کساد بازاری مہنگائی اور بے روزگاری کو خطرناک حد تک لے جائے گی۔ اس کی وجہ سے حکومتیں ہی نہیں ریاستیں بھی عدم استحکام کی زد میں رہیں گے۔
جمعرات کی صبح چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو ”تازہ“ خبر مگر یہ آچکی تھی کہ تحریک انصاف کے ایک اہم رونما اعظم سواتی جو ایوان بالا کے رکن بھی ہیں گرفتار کرلئے گئے ہیں۔عمران خان صاحب کے سوشل میڈیا پر حاوی حامیوں نے فوری تاثر یہ پھیلانا شروع کردیا کہ سواتی صاحب کو درحقیقت ان کے قائد کو ”گھیرنے“ کے لئے گرفتار کیا گیا ہے۔غالباََ انہیں فارن فنڈنگ کیس میں ملوث کرنے کی کوشش ہوگی۔ مذکورہ خبر اور اس کی بنیاد پر پھیلائے تاثر نے مجھے اپنے ذہن میں موجود موضوع کو یکسر بھلانے کو مجبور کردیا۔ ”نیوز سائیکل“ کی مبادیات سے رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔ان پر غور کے بعد یہ طے کرلیا کہ اب رات کے بارہ بجے تک روایتی اور سوشل میڈیا پر اعظم سواتی کی گرفتاری ہی زیر بحث رہے گی۔
سواتی صاحب میڈیا کی پسندیدہ شخصیتوں میں شامل نہیں۔ان کی گرفتاری شاید تحریک انصاف کے دیرینہ حامیوں کو بھی پریشان نہیں کرے گی۔سواتی صاحب کے بارے میں موجود لاتعلقی اور بے اعتنائی کے باوجود ان کی گرفتاری مگر اس تاثر کو تقویت دینے کے لئے استعمال ہوگی کہ بھان متی کا کنبہ دِکھتی ”امپورٹڈ حکومت“ درحقیقت عمران خان صاحب نامی ایک ”دیو“ کو گھیرے میں لینا چاہ رہی ہے۔براہ راست ان پر ہاتھ ڈالنے سے گھبراتی ہے۔ابھی تک انہیں گھیرنے کو جو کیس تیار ہوئے عدالتوں نے انہیں قابل تعزیرہی شمار نہیں کیا۔ اب ان کے چنیدہ ساتھیوں کو وفقوں وفقوں سے گرفتار کرنے کے بعد بالآخر ان پر ”پکاہاتھ“ ڈالا جائے گا۔
تسلیم کرنا ہوگا کہ اعظم سواتی کی گرفتاری عمران خان صاحب کی شخصیت ہی کو ”نیوز سائیکل“ میں نمایاں رکھے گی۔ اس کی وجہ سے ہم اس امر کی بابت غافل رہیں گے کہ معیشت پر گہری نگاہ رکھنے والے محققین ہمارے مستقبل کے بارے میں پریشان کن ”خبریں“ دے رہے ہیں۔یہ سوال مگرہماری توجہ کا مستحق نہیں ہوگا کہ روس کی یوکرین کے ساتھ جاری جنگ میں حال ہی میں آئی شدت ہماری معیشت پر مزید کونسے منفی اثرات کا سبب ہوگی۔ یہ امکان بھی شدت سے زیر بحث لایا جارہا ہے کہ یوکرین پر سرعت سے قبضے میں ناکام ہونے کے بعد روسی صدر اپنی خفت مٹانے ”سمارٹ“ ایٹم بم بھی استعمال کرسکتا ہے۔دفاعی ماہرین اب تک ہمیں اطمینان دلاتے رہے ہیں کہ ”سمارٹ“ بم محض ایک مخصوص حد تک پھیلے علاقے ہی میں تباہی پھیلاتے ہیں۔اب مگر ہواﺅں کے رُخ اور چلن کا ذکر شروع ہوگیا ہے۔ہم ان سنگین موضوعات کی بابت مگر قطعاََ بے خبر اور لاتعلق ہیں۔