شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں بریت اور ہمارے رویے
وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں بری قرار دے دئیے گئے ہیں۔ سپیشل سنٹرل کورٹ لاہور نے 16 ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں بریت کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے مذکورہ فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ جس کو بدھ کے روز جاری کر دیا گیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے نومبر 2020ء میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سیلمان شہباز سمیت 16 ملزموں کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعات 34,471,468,420,419 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 4/3 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ سلمان شریف برطانیہ میں ہیں اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔ 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے چالان میں ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام نظر آئی۔ درخواستیں منظور کرتے ہوئے شہباز شریف اور حمزہ کو بری کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس تحریکِ انصاف کی حکومت میں اس وقت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے تیار کرایا تھا۔ جس پر سرکاری خزانے سے رقم خرچ کی گئی۔ یہ کیس بنیادی طور پر ایک کمزور کیس تھا جسے بادی النظر میں محض سیاسی انتقام کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اس کیس میں 161 گواہوں کے بیانات میں کسی بھی گواہ نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو نامزد نہیں کیا۔ عدالت نے گواہوں کا ریکارڈ کھلوایا اور اپنے ریمارکس دئیے کہ قانون کے مطابق پراسیکیوشن کو اپنا لگایا گیا الزام ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔ جس میں وہ ناکام رہا۔ شہباز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔ ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021ء کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دونوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔ ایف آئی اے کی طرف سے جمع کروائے گئے 7 والیمز کا چالان 4000 سے زائد صفحات پر مشتمل تھا۔ جس میں 100 گواہوں کی فہرست بھی جمع کرا دی تھی ، جنہیں گواہ کے طور پر پیش ہونا تھا۔ چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی اکائونٹس کا سراغ لگایا جو 2008ء سے 2018ء تک شہباز فیملی کے چپڑاسیوں ، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے ، ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکائونٹس میں 16 ارب روپے 17000 سے زائد کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکائونٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔ چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998ئ) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہِ راست ملوث تھے، ایف آئی اے نے کہا تھا کہ یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے۔
حقیقت یہ ہے متعلقہ سیشن جج نے عدالت کے روبرو پیش کئے گئے حقائق و شواہد کی بنیاد پر ہی فیصلہ صادر کیا ہے‘ لیکن ہمارا یہ سیاسی کلچر بن چکا ہے کہ عدالت کا فیصلہ اگر اپنی مرضی کے مطابق نہ ہو تو اس کو ہدف تنقید بنا دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اس مقصد کیلئے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے کسی دلیل‘ منطق کے بغیر جو جس کے جی میں آئے بیان کر دیتا ہے۔ یہ صورتحال سوچ اور فکر کی کجی کی مظہر ہے۔ اعلیٰ عدلیہ خود بھی اس سیاسی روش کا نوٹس لے چکی ہے مگر سیاسی قیادتیں بدستور اس روش پر گامزن ہیں۔ اب مذکورہ فیصلے پر تحریک انصاف کی قیادت سمیت دیگر سیاستدان بھی منفی ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ شرقپور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف کا 16 ارب روپے کا سیدھا سیدھا کیس تھا۔ اس میں کوئی دورائے ہی نہیں تھی‘ جو ہینڈلرز تھے‘ ان کو سب پتہ تھا۔ ایف آئی اے میں اپنا آدمی بٹھا کر اپنے کیسز ختم کئے جا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اربوں کے کرپشن کیسز معاف کر دیئے گئے۔ اس سے زیادہ ظلم کسی معاشرے میں نہیں ہو سکتا۔ حکومت‘ عدلیہ اور فوج سمیت تمام اداروں کے اپنی مرضی کے سربراہان کا تقرر کرکے ان سے مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہے۔
عدالتی فیصلوں پر اس طرح کے متعصبانہ تبصرے معاشرے میں ذہنی انتشار اور خلفشار کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ اب یہ سیاسی کلچر تبدیل ہو جانا چاہئے۔ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام صحت مند معاشرے کی ضرورت ہے۔ اداروں کا اگر احترام ختم ہو جائے تو ادارے اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں اور اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو اب بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جس میں منی لانڈری کیس میں وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صدر اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی بریت کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ اس میں یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ جن لوگوں نے ایسے کیس تیار کئے جن کے شواہد ان کے پاس نہیں تھے‘ ان کے خلاف کیا ایکشن تجویز کیا گیا۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ مستقبل میں اس قسم کی انتقامی کارروائی کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
ہماری ملکی سیاست میں انتقامی جذبات اس حد تک رواج پا چکے ہیں کہ حق اور باطل کی تفریق ہی ختم ہو گئی ہے۔ مخالف کو محض ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے اصول و ضوابط اور قانون و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس روش کے آگے بند باندھ دیا جائے۔ سیاسی عدم استحکام سے پہلے ہی ملک کو بہت نقصان ہو چکا۔ ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔ اس میں بہتری سیاسی استحکام ہی سے مشروط ہے اور سیاسی استحکام کیلئے سیاسی قیادتوں کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کردار و عمل پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ سیاست میں بلیم گیم کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ملک میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آپائے گا۔لہذا ہمیںجھوٹی انائوں کے بت توڑ کر خالص ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک میز پر بیٹھنا ہوگا اور ایسا مشترکہ اور متفق علیہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں ملک میں موجود بحرانوں پر قابو پایا جا سکے اور امن و سکون کی فضا میں ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہو سکے۔