• news
  • image

مولانا مفتی محمود کی دینی و ملی خدمات

 سیا سی تحریکات میں حضرت مولانا مفتی محمود کا تاریخی کردار
مولانا محمد امجد خان 
 مفکر اسلا م حضر ت مولانا مفتی محمود ملک کے ایک ممتاز عالم دین اور تجربہ کار سیاسی راہنما تھے انہوں نے اپنی زندگی میں اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں اور اس مقصد کے لیے ناصرف خود درس و تدریس کا کام کیا بلکہ دینی مدارس بھی قائم کیے۔ مولانا کی زندگی کا دوسراپہلو ان کی سیاسی خدمات سے متعلق ہے۱۹۷۰ء کے انتخابات میں بے سروسامانی کی حالت میں جمعیت علماء اسلام نے سرحد و بلوچستان میں کامیابی حاصل کی اس انتخابات کی دلچسپ بات یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو پنجاب اور سندھ میں چار حلقوں سے کامیاب ہوئے لیکن سرحد کے حلقہ ڈی آئی خان میں مولانا مفتی محمود سے زبردست شکست کھا گئے۔ اپنی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب بھٹو صاحب نے آئندہ مولانا مفتی صاحب کے مقابلہ مین الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا۔
انتخابات کے نتیجہ میں سر حد و بلوچستان میں سیاسی اور پارلیمانی طاقت کا توازن جمعیت کے ہاتھ آگیا اور یوں عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر انہوںنے یکم مئی ۱۹۷۲ء کو دو صوبوں میں جمہوری حکومتوں کے قیام کو عملی شکل دی ۔ پنجاب و سندھ میں پیپلز پارٹی اور سر حد و بلوچستان میں نیپ و جمعیت نے حکومتوں کی بھاگ دوڑ سنبھالی ۔ سر حد میں نیپ وجمعیت کی مخلوط حکومت حضرت مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں قائم ہوئی اور بلوچستان میں وزارت اعلیٰ نیپ کے حصہ میں آئی۔حضرت مفتی صاحب کا پاکستان کے ایک صوبے کا انتظامی سربراہ بن جانا پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ تھا۔مفتی صاحب نے یکم مئی ۱۹۷۲ء کو سرحد کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور ۱۵ فروری ۱۹۷۳ء کی شام کو بلوچستان کی جمہوری اور آئینی حکومت کی جبری بر طرفی کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا۔ اس مختصر مدت میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے صوبے میں جو انقلابی اصلاحات کیں،اس  میں اسلامی قوانین کی ترویج اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات فراموش نہیں کئے جا سکتے ۔
حضرت مولانا مفتی محمود  نے نو ماہ کے دوران جن اصلاحات کا اعلان کیا ان کے تحت شراب پر مکمل پابندی ،اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دینا، جہیز پر پابندی ،شلوار قمیض کو سرکاری لباس قرار دینا، خواتین کے لئے لازمی پردہ،قمار بازی پر پابندی اور تعلیمی اصلاحات قابل ذکر ہیں۔آپ کے دور حکومت میں رسمی تعلیم و دینی علوم کو عام کر کے طلباء کے لئے وظائف رکھے گئے۔ تعطیل جمعہ کی سفارش ۔اسلامی قوانین کے نفاذ کے بورڈ کا قیام ۔ احترام رمضان کے آرڈیننس کا اجراء اورسود کی بندش کیلئے  اقدامات کا اعلان کیا گیا۔ 
حضرت مولا مفتی محمود کی زندگی میں احتیاط اور توازن کا پہلو غالب تھا اور آپ کے قول وفعل میں تضاد نہیں تھا۔ حضرت مفتی صاحب نے اپنے عہدے کی تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر کے قومی قیادت میںخوش آئند کارنامے کا اضافہ کیا۔ آپ نیبلوچستان کی جمہوری حکومت کو بلاوجہ بر طرف کرنے اور سرحد و بلوچستان کے گورنر وں کی جبری بر طرفی کے جمہوریت کش اقدامات کے خلاف بطور احتجاج صوبہ سرحد کے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے کر مثال قائم کی۔مفتی صاحب کے استعفیٰ کے بعد صدر بھٹو نے استعفیٰ واپس لینے کی التجا کی لیکن حضرت مفتی صاحب نے صدر بھٹو پر واضح کر دیا کو وہ اس وقت تک اس بارے میں غور بھی نہیں کر سکتے جب تک ان کے استعفیٰ کی وجوہات پر غور نہیں کیا جاتا۔جمہوری حکومتوں کی بر طرفی کے بعد ملک کی مختلف جماعتوں کے درمیان متحدہ جمہوری محاذ کا قیام عمل میں لا یا گیا ۔ حضرت مفتی صاحب نے کا اس میںنمایاں کردار رہا اور آئین کی تدوین کے مرحلہ پر حکومت کے ساتھ مذاکرات میں آپ نے حزب اختلاف کی نمائندگی کی۔ جون ۱۹۷۳ء میں سرحد وبلوچستان کی حکومتوں کی بر طرفی کے خلاف مری میں ہونے والے مذاکرات میں حکومت کو ان صوبوں میں جمہوری حکومتوں کے قیام پر قائل کر لیا گیا لیکن صدر بھٹو بعد میں نمائندہ حکومتوں کی بحالی کا وعدہ ایفا نہ کر پائے ۔  چنانچہ اگست ۱۹۷۳ء میں صدر بھٹو کے ان غیر جمہوری اقدامات کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ کے پلیٹ فارم سے پاکستان بھر میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی گئی۔ مولانا مفتی محمود صاحب نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے قومی اسمبلی میں نہایت موئژ اور جاندار طریقے سے اسلام اور عوام کی نمائندگی کی۔اور ستمبر ۱۹۷۴ء میں آئین میں متفقہ طور پر تیسری ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں منظورکروایا گیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے بھی حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کا کردار نمایاں تھا۔ جن حالات میں آپ کو اسمبلی کے اندر حزب اختلاف کی قیادت کرنا پڑی ماضی کا شاید کوئی قائد حزب اختلاف ان سے دوچار ہوا ہوگا۔تب مسٹر بھٹو کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ 
۱۹۷۷ء کے عام انتخابات میں حکمران جماعت کی طرف سے تاریخی دھاندلی کے خلاف مولانا مفتی صاحب کی قیادت میں زبردست تاریخ ساز احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ جس کے نتیجے میں حکمران جماعت پی این اے کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوئی۔ مفتی محمود صاحب حکمران جماعت سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے سربراہ بھی تھے۔ ۳ جون ۱۹۷۷ء کو مذاکرات کا آغاز ہوا اور ۳ جولائی تک یہ مذاکرات جاری رہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر"مسڑ بھٹو کو کسی راسپوٹین کے آنے کا اندیشہ ہے تو وہ ہمارا مشورہ قبول کیوں نہیں کرتے؟ لیکن بدقسمتی سے 5 جولائی کو ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور جنر ل محمد ضیاء الحق مرحوم نے چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ جب ضیاء الحق نے انتخابات کرانے کی بجائے الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا اس پر مولانا مفتی محمود نے وفاقی حکومت سے اپنے رفقاء کو مستعفی ہو جانے کو کہا اور علی الاعلان جنرل ضیاء الحق کی غلط پالیسیوںکے خلاف سخت تنقید کرنے لگے اور ا ملکی قیادت جمعیت علماء اسلام، پی ڈی پی ، پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر  جماعتوں کو جمع کر کے جدوجہد کا آغاز کیا۔
مولانا مفتی محمود ایام حج کی آمد کے موقع پر حج کی ادائیگی کے ارادے سے کراچی گئے۔  روانگی سے ایک دن قبل جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹائون میں آپ فقہی مسئلے پر گفتگو  کر رہے تھے کہ ظہر کی نماز سے کچھ دیر قبل آپ اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن