ہفتہ، 18 ربیع الاول 1444ھ، 15اکتوبر 2022ء
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان لانگ مارچ لے کر آئے تو پکڑ کر الٹا لٹکا دینگے۔
جب تک حکمرانوں اور اپوزیشن کی جانب سے ایسے تندوتیز الفاظ کے استعمال سے گریز نہیں کیا جائیگا‘ ملکی سیاست میں نہ استحکام آئیگا نہ شائستگی بلکہ ماحول کشیدہ سے کشیدہ ہوتا جائیگا۔ المیہ یہ ہے کہ جیسے ہی کسی طرف سے لفظی گولہ باری ہوتی ہے تو دوسرا خاموش رہنے کی بجائے ترنت جواب دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھ لیتا ہے کہ اگر اس بیان کا جواب نہ دیا گیا تو ہمارے غیرشائستہ لفظوں پر مشتمل اسلحہ کا ڈپو بیکار ہو جائیگا۔ خدارا! ہر جنگ کا خاتمہ بالآخر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی ہوتا ہے۔ ایران عراق کی جنگ دیکھ لیں‘ افغانستان اور امریکہ کی جنگ کا خاتمہ بھی بالآخر مذاکرات سے ہی ہوا ہے۔ اگر ہمارے سیاسی رہنما ملک میں امن و استحکام لانا چاہتے ہیں اور اسے واقعی ترقی دینا چاہتے ہیں تو انہیں الزام تراشی کی سیاسی جنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ابھی تک تو انکی لفظی جنگ سے ملک دشمن طاقتیں ہی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو بھی اب اپنی جارحانہ سیاست سے رجوع کرلینا چاہیے۔ اس عرصہ میں انہیں بخوبی ادراک ہو چکا ہوگا کہ وہ اپنی اس دھماچوکڑی کی سیاست سے اب تک کچھ حاصل نہیں کر پائے تو آئندہ کامیابی کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے۔ دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ حالات سدھرنے کی بجائے مزید خراب ہو رہے ہیں جبکہ عوام الگ ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ خان صاحب! موجودہ حکومت کے پاس چند ماہ باقی رہ گئے ہیں‘ انہیں سکون سے کام کرلینے دیں۔ اگر یہ عوام کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے تو عام انتخابات میں عوام ان کا فیصلہ خود کر دینگے لیکن ایک سوال خان صاحب سے بھی ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد آپ قوم کے دل جیت پائیں گے؟ کیونکہ آپ نے اپنے سابقہ دور میں قوم کو صرف مایوس ہی کیا ہے۔ اور جناب رانا صاحب ! آپ تو اقتدار میں ہیں‘ آپ کا رویہ اپوزیشن سے مختلف ہونا چاہیے‘ اگر حکومتی اکابرین کی طرف سے بھی یہی رویہ اختیار کیا جائیگا تو حکومت اور اپوزیشن میں کیا فرق نظر آئیگا۔ اس لئے انہیں اپنے الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ وہ اپنے نام ’’ثناء اللہ‘‘ کی لاج رکھ سکیں۔
٭…٭…٭
سابق امریکی صدر باراک اوباما اور خاتون اول مشل اوباما نے لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر ایران کی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
سابقہ یا موجودہ اگر کسی بڑے لیڈر کی طرف سے عوام کیلئے ہمدردی اور محبت کے دو بول بول دیئے جائیں تو انکی ڈھارس بندھ جاتی ہے اور ان میں مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ایرانی خواتین خوش قسمت ہیں جنہیں سابق امریکی صدر اور انکی اہلیہ کی طرف سے خصوصی پیغام شیئر کرکے کہا گیا ہے کہ ہم بہادر ایرانی خواتین کے ساتھ عالمی دن پر اظہار یکجہتی کرتے ہیں جنہوں نے اپنی آواز سے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ کسی کے ساتھ ناانصافی کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔
اوباما جی آپ یہ ناانصافی کیسے برداشت کر رہے ہیں جہاں بھارت مقبوضہ کشمیر میں پچھلے 75 سال سے کشمیری خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور وہ نہ صرف اپنی عصمتوں کی قربانیاں دے رہی ہیں بلکہ اپنے جوان بیٹوں‘ بھائیوں‘ شوہروں کی زندگیوں کے نذرانے بھی پیش کررہی ہیں تاکہ جارح بھارت اور اسکی قابض فوج سے آزادی مل سکے‘ انکی آہ و پکار پوری دنیا میں گونج رہی ہے لیکن کوئی انکی آواز پر کان نہیں دھر رہا۔ اوباما اپنے دور حکومت میں مسئلہ کشمیر پر کچھ نہ بول سکے تو اب کیا بولیں گے۔ اگر وہ اس موقع پر دو بول ان کشمیری خواتین کیلئے بھی بول دیتے تو انکی شان میں کونسی کمی آجاتی۔ لیکن وہ اب بھی ایسا ہرگز نہیں کرینگے کیونکہ وہ اپنے فطری اتحادی بھارت کو کیسے ناراض کر سکتے ہیں جو انکے ایجنڈے پر کاربند رہ کر اس خطے میں اودھم مچائے ہوئے ہے اور امریکی شہ پر ہی یہاں تھانیداری کا خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے نکیل ڈالنے کیلئے ایشین ٹائیگر پاکستان اس خطے میں بیٹھا ہوا ہے جو اسکی ہر حرکت اور سازش پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسکی ہلکی سی شرارت پر اسے منہ توڑ جواب دیتا ہے لیکن وہ پھر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭
پاکستان میں پہلی بار ڈرون کیمرے سے ٹریفک مانیٹرنگ اور سرویلنس کا آغاز کردیا گیا۔
ٹریفک کے نظام کو درست کرنے کیلئے چاہے جتنے مرضی تجربات کر لئے جائیں‘ حتیٰ کہ ناسا کے سائنس دانوں کو بھی یہاں کی ٹریفک کا نظام ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ دے دیا جائے تو وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ پرانے وقتوں میں ٹریفک سارجنٹ چوراہوں کے درمیان کھڑا ہو کر ہاتھ کے اشارے سے ٹریفک کنٹرول کیاکرتا تھا۔ ترقی کے ساتھ ٹریفک میں بھی اضافہ ہوا تو سارجنٹ کی جگہ الیکٹرک سگنلز نے لے لی۔ اب ٹریفک کا اژدھام اتنا بڑھ چکا ہے کہ اسے ان سگنلز سے بھی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ چند ماہ قبل فیصلہ کیا گیا کہ شام چھے بجے سگنلز بند کرکے ٹریفک کو ہاتھ سے کنٹرول کیا جائیگا۔ یعنی ’’جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی‘‘ کے مصداق شام کے وقت یہ نظام پھر سارجنٹ کے ہاتھوں سے کنٹرول کیا جانے لگا۔ اس تجربہ کی ناکامی کے بعد اب ٹریفک سسٹم ڈرون کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈرون ٹریفک کے اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ ہمیں تو اپنی انتظامیہ کی عقل ودانش پر حیرت ہو رہی ہے۔ اصل خرابی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ بس تجربے پر تجربہ کئے جا رہے ہیں کہ کسی طرح ٹریفک کو کنٹرول کرلیا جائے۔ ہماری دانست میں تو اصل خرابی وہاں سے شروع ہو رہی ہے جہاں سے ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے۔ جب بغیر امتحان‘ بغیر قانون پڑھائے اور سفارشوں پر لائسنس جاری کردیئے جائیں گے تو ٹریفک کے ایسے ہی حالات سامنے آئینگے۔ نہ کسی کو اوورٹیک کرنے کا طریقہ کا پتہ ہے‘ نہ روڈ پر لگی لین کے بارے میں آگاہی ہے۔ ہسپتالوں اور سکول کے قریب سے گزرتے ہوئے پریشر ہارن بجانے کو بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ موٹر سائیکلسٹ اور رکشہ ڈرائیوروں کی تو کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی۔ رکشہ ڈرائیور اپنے رکشہ پر F-16 لکھ کر اسے ایف سولہ کی طرح ہی چلاتے ہیں اور رہی سہی کسر ون ویلر پوری کر دیتے ہیں۔ لہٰذا جب تک انکی تربیت اور ان کا امتحان لیکر لائسنس جاری نہیں کئے جائیں گے‘ لاکھ تجربے کرلئے جائیں‘ ٹریفک بے لگام ہی رہے گی۔
٭…٭…٭
شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ عمران سکون چھیننے سڑکوں پر نکل پڑے‘ قوم تسلیم نہیں کررہی۔
ویسے عباسی صاحب آپ برا نہ منائیں‘ عمران ہوں یا کوئی اور‘ عوام کا سکون تو ہر ایک نے چھینا ہوا ہے۔ آپکی پارٹی عوام کو سکون دینے ہی تو اقتدار میں آئی تھی اور عوام نے بھی امید باندھ لی تھی کہ جس بدترین مہنگائی کے خاتمہ کیلئے اتحادی حکومت اقتدار میں آئی ہے‘ امید کی جاسکتی ہے کہ عوام کو سکون کا سانس ملے گا۔ مگر یہ کیا آپ نے تو اتحادیوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کے سارے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ آپکی حکومت مہنگائی تو ختم نہیں کر پائی البتہ حکمرانوں کیخلاف کیسر ضرور ختم ہو رہے ہیں اسی لئے تو قوم تسلیم نہیں کر رہی کہ عمران سکون چھیننے سڑکوں پر نکل پڑے۔ اس وقت آپکی جماعت اتحادیوں کے ساتھ مل کر امور حکومت چلا رہی ہے۔ اس کیلئے بہترین موقع ہے کہ وہ عوام سے جو وعدہ کرکے اقتدار میں آئی ہے‘ اسے پورا کرتے ہوئے عوام کو ریلیف دے۔ بجلی‘ گیس کے بحران پر قابو پائے‘ یوٹیلٹی بلوں میں کمی کرے تو پھر قوم یقین کر لے گی کہ عمران خان واقعی اس کا سکون برباد کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ خاقان صاحب اگر قوم سے اپنی اچھائی اور عمران کی برائی تسلیم کرانی ہے تو اسے کچھ ڈلیور بھی کرکے دکھائیں۔