سیاسی اور موسمیاتی تبدیلیوں میں گھرا پاکستان
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی قیامت خیز بارشوں اور بتاہ کن سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ابھی تک پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ سیلاب سے ہزاروں قیمتی انسانی جانیں اور لاکھوں جانور بھی سیلاب کی نذر ہو گئے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں مکانات اور سرکاری عمارتیں خش و خاک کی طرح بہہ گئیں۔ مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے 28 اضلاع دو ماہ سے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ ڈینگی وائرس، ملیریا، بخار اور ڈائریا سمیت کئی بیماریوں کا بُری طرح شکار ہو رہے ہیں۔ اس المناک صورتحال کے باوجود بھی ہمارے حکمران اور سیاست دان اقتدار بچانے اور اقتدار گرانے کے مذموم دھندے میں مگن ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے ہمارے حکمران اپنی کرسی کو بچانے کے لیے قوانین میں ترامیم کر کے نیب کو بے اثر بناتے اور سیاسی مخالفین کو آہنی شکنجے میں جکڑنے کے لیے نت نئے حربے آزما رہے ہیں تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن، حکومت کی چُھٹی کروانے کے لیے ریاستی اداروں پر مسلسل دبائو ڈال رہی ہے اور انہیں نازیبا کلمات اور القابات سے نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ عوام حیران بھی ہیں اور پریشان بھی کہ یہ کیسی اپوزیشن ہے جو سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد اور بحالی کی طرف توجہ دینے کی بجائے الیکشن الیکشن کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر زور دار چڑھائی کرنے ہی والی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس ’’میڈ مشن‘‘ پر اربوں روپے تو یقیناً خرچ ہونگے آخر اس قدر بھاری سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے عوام ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’ٹیلی تھون‘‘ کے ذریعے جو ہماری امداد کیلئے ’’اربوں روپے‘‘ اکٹھے کئے گئے تھے وہ ہماری مدد اور بحالی پر کب خرچ ہوں گے؟ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی امداد کے لیے حاصل کردہ عطیات کہیں سیاسی مقاصد یعنی لانگ مارچ اور دھرنوں کی نذر نہ ہو جائیں؟ وقت کا یہ تقاضا اور ضرورت بھی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اپنی ’’سیاسی جنگ‘‘ کو فوراً ترک کر کے اپنی تمام تر توجہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد اور بحالی پر مرکوز کرے۔ سیاسی کھیل تماشہ تو پھر بھی ہو سکتا ہے لیکن متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے ایک پل کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔ عوام کی خدمت کے دعوے کرنے والے ہمارے حکمران اور اپوزیشن یہ بات یاد رکھے کہ موجودہ سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی ایک ریکارڈ ہے جسے دیکھ کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دوسرے ممالک سے آئے ہوئے وفود کے آنسو بہہ نکلے تھے لیکن ادھر صورتحال یہ ہے کہ ’’اقتدار کی جنگ‘‘ میں ہمارے سیاستدانوں کی ’’آنکھوں میں خون اترا‘‘ ہوا ہے۔ انہیں سیلاب متاثرین کے دکھ، درد، تکلیفوں، مصائب اور مسائل کا ’’رتی بھر‘‘ احساس نہیں۔ ایک سیاستدان کہتا ہے کہ اسلام آباد کے لانگ مارچ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ حکومت کہتی ہے کہ اگر اسلام آباد پر یلغار کی تو انہیں ’’چھٹی کا دودھ‘‘ یاد آ جائے گا۔ آخر ہمارے عاقبت نااندیش سیاست دان کب اپنے ملک اور عوام کا خیال کرینگے، انہیں ملک کی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور عوام، خاص طور پر سیلاب زدگان کے مسائل کو حل کرنے کا نہ جانے کب احساس ہوا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے ’’اقتدار کی کرسی‘‘ کو اپوزیشن سے بچانے کے لیے جہازی سائز کی کابینہ سمیت سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں ڈیرے لگا لیں کیونکہ اپوزیشن کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے چلو اسی بہانے سیلاب متاثرین کی مدد ہی ہو جائیگی۔ یاد رہے کہ اپوزیشن لیڈر ’’حکومت کی سازشوں‘‘ سے بچنے کے لیے صوبہ کے پی کے میں پناہ لے سکتے ہیں تو آپ اپنے سب سے بڑے اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی عملداری یعنی ’’علاقے‘‘ میں پناہ کیوں نہیں لیتے کیونکہ آپ کے سب سے بڑے اور اہم سیاسی مخالف عمران خان آپ کو کئی بار ’’طعنے‘‘ دے چکے ہیں کہ آپ کی حکومت محض چند کلومیٹر تک محدود ہے اور ہم جب گلگت بلتستان ’’آزاد کشمیر‘‘ کے پی کے اور پنجاب سے اسلام آباد پر یلغار کریں گے تو آپ کو ’’چُھپنے کی جگہ‘‘ نہیں ملے گی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ا س وقت ملک، سیلاب کے ساتھ ساتھ، معاشی طور پر بھی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے مہنگائی بے روزگاری اور توانائی کے بحران نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ ملک کا ہر شعبہ تباہ و برباد ہو چکا ہے زرعی اور صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ حکومت، وزراء اور مشیروں کے اخراجات اور اُن کے پروٹوکول پر اربوں کھربوں خرچ ہو رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت کا ہر قدم عوام کو ریلیف دینے کی بجائے انہیں مزید ’’مشکلات کی بھٹی‘‘ میں ’’جھونک‘‘ رہا ہے ابھی حال ہی میں حکومت نے برآمدی شعبے کے بڑے بڑے صنعتکاروں کے ’’دبائو‘‘ پر انہیں ٹیکسوں اور بجلی کے استعمال پر ’’ریکارڈ ریلیف‘‘ دے کر مہنگائی کے مارے عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ اس وقت ’’عام عوام‘‘ سے تمام ٹیکسوں سمیت اوسطاً 40 روپے سے 50 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت وصول کی جا رہی ہے جبکہ برآمدی شعبے سے متعلقہ ’’لاڈلی صنعت‘‘ سے تمام ٹیکسوں سمیت صرف 19روپے 90 پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمت وصول کی جائیگی۔اب برآمدی شعبے کو تمام تر خام مال فراہم کرنے والا کسان توقع کر رہا ہے اور دعا بھی کر رہا ہے کہ اسے بھی صنعتکاروں جیسی سستی بجلی سمیت تمام ریلیف جلد مل جائیں۔
حکومت، وزراء اور ہمارا ہر سیاسی لیڈر اپنی تقاریر اور بیانات میں ملک و قوم کی خدمت کے بڑھ چڑھ کر دعوے تو کرتا ہے لیکن کیا انہوں نے کبھی عملی طور پر کچھ کیا؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن والے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی ضد چھوڑ دیں۔ ایک دوسرے سے نفرت نہیں بلکہ اتحاد و اتفاق سے کام لیں اور پاکستان کو مضبوط بنانے، معاشی طور پر خودکفیل بنانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا کریں یہی عوام کی خواہش بھی ہے اور دعا بھی۔