سیرت رسول اورانکساری
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : ایک شخص ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوااورآپ سے گفتگو کی(دوران گفتگو)خوف کی وجہ سے اسکے سینے اورکاندھے کے درمیان کاگوشت کانپنے لگا ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : اپنے آپ کو پرسکو ن رکھو، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کے ٹکڑے کھایا کرتے تھی۔(سنن ابی ماجہ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میرے بھائی کی ولادت ہوئی تو میں اسے لے کر گھٹی ڈلوانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدامت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ بکریوں کے باڑے میں بکریوں کو نشانات لگارہے تھے ، راوی کہتے ہیں :میرا گما ن ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے کانوں پر نشان لگارہے تھے۔(سنن ابی دائود)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس نے بکریاں چرائیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟آپ نے فرمایا: ہاں ، میں چند قیراط کے عوض مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔(صحیح بخاری)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: ہم حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مرالظہر ان کے مقام پر تھے ، ہم پیلو چن رہے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ان میں سے صرف سیاہ پیلو چننا، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! گویا آپ بکریاں چراتے رہے ہیں ؟ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ہاں ، اورکیا کوئی ایسے نبی بھی تھے جنہوںنے بکریاں نہ چرائی ہوں؟ یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملتی جلتی بات فرمائی (صحیح مسلم)حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی تکیہ لگا کر کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اورنہ کبھی دوآدمی آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔(سنن ابی دائود )
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضو رنبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم ،ایک شدید گرمی کے دن ، بقیع الغرقد کی طرف تشریف لے جارہے تھے ، لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ، جب آپ نے (اپنے پیچھے )قدموں کی آواز سنی توآپ نے اس کو اپنے دل میں محسوس کرلیا اوربیٹھ گئے حتیٰ کہ لوگوں کو آگے گزرجانے دیا تاکہ (اس طرح لوگوں کے پیچھے چلنے سے)آپ کے دل میں کبرکا شائبہ تک پیدا نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ)