• news

بجلی بریک ڈاؤن ذمہ داروں کا تعین کیا جائے


جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب بجلی کا بریک ڈاؤن شدت اختیار کر گیا جس کے باعث کراچی، بلوچستان ،حیدرآباد اور جنوبی پنجاب کے بعد وسطی پنجاب بھی مکمل طور پر اس بریک ڈاؤن کی زد میں آگیا۔ تربیلا ڈیم سے بجلی کی سپلائی میں تعطل آنے سے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کا سسٹم ٹرپ کر گیا ہے جس کے باعث شہریوں کو لوڈشیڈنگ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق، گرڈ فریکوئنسی پچاس سے نیچے چلی جانے کے باعث لیسکو کے کئی گرڈز اکٹھے بند کیے گئے۔ حکام کی طرف سے عوام کو طفل تسلی دیتے ہوئے کہا تو یہ گیا ہے کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی دو روز میں اس واقعے سے متعلق حقائق سامنے لائے گی لیکن یہ ایک کھلا راز ہے کہ ماضی میں بھی کئی اعلیٰ سطحی کمیٹیوں نے ایسے واقعات کی چھان بین کی لیکن نہ تو کسی ذمہ دار کا تعین کیا گیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسی صورتحال کے دوبارہ نہ پیدا ہونے سے متعلق کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ ملک میں اس وقت بجلی کی طلب 17 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ سسٹم میں 11 ہزار میگاواٹ بجلی مل رہی ہے۔ عوام بجلی کے بلوں کی صورت میں اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ بجلی مہیا کرنے والی کمپنیوں کو ادا کررہے ہیں اور اس کے باوجود یہ کمپنیاں عوام کو مسلسل تنگ اور پریشان کررہی ہیں۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر حکومت ان کمپنیوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے اور عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اس صورتحال میں عوامی نمائندگی کے دعویداروں کا عوام کو مسائل میں گھرا چھوڑ کر سیاسی رسہ کشی میں مصروف رہنا ان کی مفاد پرستی کا ثبوت ہے۔ حکمران اتحاد اگر واقعی عوام کے لیے ہمدردی کا ذرا سا بھی جذبہ رکھتا ہے تو اسے بجلی مہیا کرنے والی کمپنیوں کو نکیل ڈال کر عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنا چاہیے اور حالیہ بریک ڈاؤن جیسے واقعات کے تدارک کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن