• news
  • image

عام انتخابات میں معذور ووٹرز کے لیے جامع پالیسی کی اشد ضرورت ہے

رانا فرحان اسلم 
ranafarhan.reporter@gmail.com
 ذہنی صحت کا عالمی دن

پاکستان میں معذوری سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے سبب  ہم سرکاری اور نجی سطح پر خصوصی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کرپاتے ہیں۔اعلی تعلیم اور مہارتوں کی بجائے صرف جسمانی معذوری کی بنا ء پر ملازمت کے لیے رد کیا جانایا ان کی قابلیت کے لحاظ سے بہت کم تنخواہ کی پیش کش المیہ ہے۔ایسے معذور بچے پاکستانی معاشرے کے سب سے زیادہ پسے طبقات میں شامل ہیں۔  انہیں کوئی یاد رکھتا ہے نہ ہی توجہ دیتا ہے۔لوگوں کے رویے اکثر من گھڑت باتوں کی وجہ سے بے توجہی پر مبنی ہوتے ہیں۔خصوصی بچوں کے لیے سہولیات، خاص طور پر تعلیمی سہولیات کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایسے 14 لاکھ بچے کسی بھی قسم کی تعلیم سے محروم ہیں، کیونکہ انہیں اس تک رسائی نہیں ہے۔لیکن کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو اس خلا کو پر کرنا چاہتے ہیں۔اس کامقصد ان بچوں کی خصوصی ضروریات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنااور من گھڑت باتوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں معذوروں کے لیے قابلِ رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار آلات کی بدولت سماعت اور بصارت سے محروم افراد بھی آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی آجرین اور کاروباری اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میںترغیب اور تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں معذوری کی اقسام کے مطابق اپنے اداروں میں ملازمتیں پیدا کرنے کی آگاہی ملنی چاہیے۔
معروف انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کی کنسلٹنٹ اسپیچ اینڈ لینگویج پیتھالوجسٹ اوربیہیورل اینالسٹ ڈاکٹر تحریم خان بنگش کے مطابق خصوصی بچوں کو توجہ اور تربیت کے ذریعے معاشرے کیلئے کار آمد بنایا جا سکتا ہے  
پائیدار ترقی کے ہدف کے مطابق 2030 تک عمر، جنس، معذوری، نسل، قومیت، مذہب یا اقتصادی یا دوسرے درجے کا لحاظ رکھے بغیر تمام لوگوں کو بااختیار بنانا اور سب لوگوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی شمولیت کو فروغ دینا ہے وطن عزیز میں معذور افراد کی معاشی و معاشرتی بحالی کے لیے ہر سطح پر سیاسی امور میں ان کی شمولیت لازم و ملزوم ہے۔ اگلے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے اہل معذور ووٹرز کی شمولیت کو مکمل بنانے کے لیے جامع پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن، نادرا اور افرادِ باہم معذوری کو متحرک ہونا پڑے گاہمارے ملک میں مقامی حکومت، صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی طرح معذور افراد کے لیے بھی نشستیں مختص ہونی چاہئیں تاکہ افرادِ باہم معذوران سے متعلق بننے والی تعمیر و ترقی کی تمام پالیسیوں کے بارے میں ان کی رائے شامل حال رہے، کیونکہ وہ اپنے مسائل اور ان کا حل کی بہتر طور پر نشاندہی کرسکتے ہیںبدقسمتی سے پاکستان میں بحالی برائے معذوران ایکٹ 1981 کے بعد افرادِ باہم معذوراں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی قابلِ ذکر قانون سازی نہیں ہوسکی ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں نے معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کا بل پاس کردیا ہے، جبکہ جنوری 2018 میں قومی اسمبلی میں بھی حقوق برائے باہم معذوری بل  2017  پیش کیا جا چکا ہے جو مزید غور و فکر اور مباحثے کے لیے متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا ہے اس مرحلے سے گزر  کریہ یہ بل سینیٹ کے سامنے پیش ہوگا ۔ اس بل کی منظور ی سے پاکستانی معذور افراد کو بھی اپنے حقوق کی پاسداری کے لیے قانونی تحفظ مل جائیگا ۔ عالمی سطح پرپائیدار ترقی کا ہدف   2030 تک رکھا گیا ہے۔اس کے تحت سب کے لیے محفوظ  قابل رسائی اور پائیدار نقل و حمل کا نظام فراہم کرنا ہوگا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے کے ساتھ روڈ سیفٹی کو بہتر کرنا ہوگا اور خاص طور پر غیر محفوظ حالات میں رہنے والے افراد عورتوں بچوں افراد باہم معذوری اور بزرگ افراد کی ضروریات پر خصوصی توجہ دینی ہوگی تعلیم و تربیت کے حصول ملازمت و کاروبار، سیر و تفریح اور شاپنگ وغیرہ کے لیے عام شخص کی طرح معذور شخص کو بھی گھر ے باہر لازما نکلنا ہوتا ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ ان کے لیے قابِل رسائی نہیں ہوگی تو یوں وہ گھروں تک ہی محصور ہوجائیں گے ترقی یافتہ ممالک خصوصا جاپان، امریکا، کینڈا وغیرہ میں شدید ترین معذور افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانے اور معاشرے کا فعال شہری بنانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو 100 فیصد قابِل رسائی بنا دیا گیا ہے۔
 گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں میڑو بس اور لاہور اور ملتان میں اسپیڈو بس سروس کا آغاز ہوچکا ہے جو کہ وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے قابِل رسائی ٹرانسپورٹ ہے وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کا یہ اقدام قابل تحسین ہے 2030 تک امید کی جاسکتی ہے کہ عورتوں، بچوں، بزرگوں اور افرادِ باہم معذوراں کے لیے پاکستان کی تمام پبلک ٹرانسپورٹ قابل رسائی بن جائے گی ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موٹر سائیکل اور موٹر کار کمپنیاں معذور افراد کے لیے مقامی سطح پر موٹر سائیکل اور گاڑیاں ڈیزائن کرکے اپنے صارفین کی تعداد بڑھا سکتی ہیں۔2030 تک خواتین اور بچوں خاص طور پر بڑی عمر کے افراد اور افرادباہم معذوری کے لیے محفوظ، جامع اور قابلِ رسائی سرسبز اور عوامی مقامات تک عالمگیر رسائی فراہم کرنی ہوگی ۔ ڈاکٹر تحریم خان بنگش نے کہا ہے کہ خصوصی بچوں کو توجہ اور تربیت کے ذریعے معاشرے کیلئے کار آمد بنایا جا سکتا ہے معروف انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد میں خصوصی بچوں کیلئے ایک خصوصی یونٹ تشکیل دیا گیا ہے جہاں ان بچوں کی دیکھ بھال اور انکی ذہنی و جسمانی صحت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

epaper

ای پیپر-دی نیشن