بے مقصد ضمنی انتخابات!!!!
بے مقصد و بے معنی ضمنی انتخابات اپنے اختتام کو پہنچے ہیں جب ایک جماعت قومی اسمبلی میں جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہے تو ان حالات میں ایسے انتخابات کا کیا فائدہ ہے۔ اگر پاکستان تحریکِ انصاف سمجھتی ہے کہ انتخابات کے نتائج سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یا پھر وہ مل کی سب سے مقبول جماعت ہے تو اس حوالے سے رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ گوکہ عمران خان نے فتح حاصل کی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عام انتخابات میں وہ سارے ملک سے خود ہی الیکشن لڑیں گے یقیناً ایسا نہیں ہے اور ان انتخابات میں بھی ناصرف ایک جگہ انہیں شکست ہوئی بلکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر بھی پاکستان تحریک انصاف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے انتخابات کے نتائج کو معیار بنانا یا اسے مقبولیت کا معیار مقرر کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سیٹوں کی واپسی تو نہیں ہو رہی اور اگر سیٹیں واپس جا رہی ہیں تو یہ عام انتخابات میں یہ رجحان تیز بھی ہو سکتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی تین کی نشستوں پر بھی ضمنی انتخابات ہوئے جن میں پی پی 139 شیخوپورہ، پی پی 209 خانیوال اور پی پی 241 بہاولنگر شامل ہیں۔پی ٹی آئی نے دو اور مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست جیتی۔پی پی 209 خانیوال کی نشست پی ٹی آئی نے جیت لی۔ غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے محمد فیصل خان نیازی 71156 ووٹ لے کر۔بہاولنگر سے تحریک انصاف کے ملک محمد مظفر خان 59957 ووٹ لے کر اور شیخورپورہ سے مسلم لیگ نواز کے چودھری افتخار احمد بھنگو 40829 ووٹ لے کر پہلے نمبر رہے۔
کراچی اور ملتان سے پی ٹی آئی کی شکست ان کے اکابرین کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی واپسی ہو رہی ہے اور یہ رجحان آئندہ عام انتخابات تک برقرار رہتا ہے تو پھر حالات مختلف ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ نون سمیت دیگر علاقائی جماعتوں کی حلقوں میں واپسی کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ گوکہ انہیں ناکامی کا سامنا رہا ہے لیکن وہ ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ کراچی سے عمران خان کی شکست ان کی چھ سیٹوں کی کامیابی میں چھپ نہیں سکتی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کہتے ہیں کہ "قوم نے واضح کردیا ہے کہ وہ کس طرف کھڑی ہے، اب ملک کے فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا پاکستان کو اس تبدیلی کے راستے پر چلنے دینا ہے جو عوام چاہتے ہیں یا پھر عوام کو اتنا مجبور کرنا ہے کہ وہ کوئی دوسرا راستہ چنیں۔کیا فیصلے کرنے والوں کی دماغ میں کوئی ابہام ہے۔" شاید اسد عمر بھول رہے ہیں کہ جب وفاق اور پنجاب میں ان کی حکومت تھی اس وقت ضمنی انتخابات میں کون کامیابی حاصل کر رہا تھا۔ کیا ان انتخابات میں ناکامی کے بعد آپ کو یہ خیال آیا اور آج بھی پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے پھر آپ کسں کو پکار رہے ہیں، جب آپ اسمبلی سے باہر ہیں تو کس فیصلہ ساز سے مخاطب ہیں کیوں پارلیمنٹ میں واپس نہیں جاتے اور عام انتخابات تک انتظار نہیں کرتے کیوں جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری طاقتوں کی مدد چاہتے ہیں۔ کیا مسلم لیگ نون کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی، کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی، کیا انہوں نے وفاق میں واپسی کا سفر جمہوری طریقوں سے طے نہیں کیا۔ اگر پی ٹی آئی خود کو جمہوری قوت کہتی ہے تو پارلیمنٹ سے باہر رہنا تو کسی جمہوری قوت کو زیب نہیں دیتا۔ جہاں تک تعلق کسی دوسرے راستے کا ہے یہ قوم کو بغاوت پر اکسانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسد عمر اور ان جیسے دیگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے ملک کے مسائل میں اضافہ کیا ہے، بیرونی دنیا سے پاکستان کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے ان کا اپنی زبان پر قابو نہیں ہے، نہ بولتے ہوئے انہیں کچھ خیال رہتا ہے نہ بولنے کے بعد کچھ خیال آتا ہے کہ کیا بول رہے ہیں۔ ذرا اپنے الفاظ پر غور کریں۔ کبھی ان کی جماعت کے لوگ دفاعی اداروں کے حوالے سے متنازع گفتگو کرتے ہیں، کبھی اداروں کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی شہداءکے خاندانوں کو دکھ پہنچاتے ہیں اور آج نجانے کن فیصلہ سازوں کو پکار رہے ہیں۔ کیا امریکہ کی مدد درکار ہے یا پھر کسی اور سے مدد کے طلب گار ہیں۔ اگر عوام کی طاقت پر بھروسہ ہے تو آئندہ عام انتخابات کا انتظار کریں جیت جائیں گے تو حکومت بنائیں کون روک رہا ہے لیکن سچ بات کریں، مفادات اور اقتدار کی سیاست نہ کریں۔ یہ بیانات کہ عوام کوئی اور راستہ اختیار کریں ایسے الفاظ قابل مذمت ہیں اور کبھی کبھی قابلِ گرفت بھی ہوتے ہیں۔
عام انتخابات کا ماحول مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے۔ وہاں ٹکٹوں کے معاملے میں اختلافات رہتے ہیں اور یہ اختلافات نتائج پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ووٹرز کی سوچ بہت عجیب ہے یہ طاقتور کی نفرت میں اس کے خاف ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ جب عمران خان حکومت میں تھے تو لوگ انہیں برا بھلا کہتے تھے اب وہ اپوزیشن میں ہیں تو موجودہ حکمرانوں کو پسند نہیں کر رہے۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے شعور کی کمی اور لاعلمی بڑا مسئلہ ہے یہاں کسی بھی جماعت یا امیدوار کے حق یا مخالفت میں ووٹ دینے کے لیے کارکردگی سے زیادہ پسند کی زیادہ اہمیت ہے۔ شہری علاقوں میں ووٹرز کا رجحا کچھ تبدیل ضرور ہوا ہے لیکن پھر بھی الیکٹیبز آئندہ عام انتخابات میں سب سے اہم کردار ادا کریں گے۔ مسلم لیگ نون کے لیے ضمنی انتخابات کے نتائج لمحہ فکریہ ہیں اگر حکومت قائم رہتی ہے اور عام انتخابات آئندہ برس ہوتے ہیں تو ان کے پاس وقت ہے کہ وہ ناراض ووٹرز کی حمایت حاصل کریں لوگوں کے کام کریں اور قومی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ بالخصوص مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوتی، ادویات کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں، ڈالر کمزور اور روپیہ مستحکم نہیں ہوتا تو پھر صرف جوڑ توڑ کے ذریعے الیکشن جیتنا مشکل ہو گا۔ اگر عام آدمی کی زندگی میں کچھ آسانی پیدا ہوتی ہے تو معاملات مختلف ہو سکتے ہیں۔ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایک اور خامی سامنے آئی ہے۔ انتخابی قوانین میں یہ تبدیلی ضرور ہونی چاہیے کسی بھی شخص کو ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنا کئی مسائل کا سبب ہے۔ عمران خان پہلے ہی اسمبلی سے باہر ہیں پھر وہ اسمبلی میں جانا بھی نہیں چاہتے ان حالات میں یہ انتخابات کیا ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث نہیں بنے اور آئندہ بھی ایسی کوئی مشق کیسے پاکستان کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔