بریسٹ کینسر پر سیمینار
بریسٹ کینسر ایک موذی اور مہلک مرض ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کو بہت تکلیف اور اذیت اٹھانی پڑتی ہے۔ بریسٹ کینسر کے ٹیسٹ اس قدر سخت اور تکلیف دہ ہو تے ہیں کہ مریض کو اندازہ ہو جاتا ہے، مریض اذیتناک مرحلے سے گزرنے والا ہے۔ بریسٹ کینسر دردناک مرض کے ساتھ انتہا ئی مہنگا ترین علاج ہے۔ یہ بیماری زیادہ تر خواتین کو لاحق ہو تی ہے۔کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمود ایاز نے کہا کہ بریسٹ کینسر کا مرض مردوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ پروفیسر محمود ایاز نے سیمینار سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ کینسر کا مرض بڑھنے کی وجہ لا علمی اور غفلت ہے۔ جب بیماری پھیل جاتی ہے تب جا کر مریض ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں۔ اموات کی شرح میں اضافہ بر وقت علاج نہ کرانے کے وجہ سے ہو تا ہے۔ وی سی پروفیسر محمود ایازنے مزید کہا کہ میو ہسپتال میں ہم تشخیص اور علاج کے ساتھ ساتھ ملک کے کو نے کو نے میں آگہی مُہم چلا رہے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ یو نیورسٹی میں منعقدہ اس سیمینار سے کینسر اور اس کی پیچیدگیوں پر روشنی پڑی۔ سٹیج پر موجود ڈا کٹرز نے کینسر کے حوالے سے اعداد و شمار ، مرض کی شدت، نو عیت اور علامات بیان کیں۔ وہ لمحہ فکریہ تھیں۔ وی سی پروفیسر محمود ایاز، ڈاکٹر ثاقب سعید، ایم ایس میو ہسپتا پروفیسر زیبا، پروفیسرعباس کھوکھر، ڈاکٹر عزیر قریشی، ڈاکٹر عائشہ شوکت، ڈاکٹر سائرہ (کمپیئر) نے تفصیل سے بتا یا کہ کینسر ایک پیچیدہ لیکن قابل ِ علاج مرض ہے۔ اگر بریسٹ کینسرکی بر وقت تشخیص ہو جائے تو اسکا علاج آسانی سے ممکن ہے۔ کینسر سے متعلق ان تمام سینئر ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر میں مریض بیماری کو سمجھنے میں دانستہ یا نا دانستہ تا خیر کر دیتے ہیں کیونکہ بریسٹ کینسر زیادہ تر خوا تین میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے خوا تین کو بیماری کی سمجھ نہیں آتی یا وہ اُسے پہچان نہیں پاتیں اور ڈا کٹرز تک پہنچنے میں تاخیر کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے عموماًبیماری تیسری یا چوتھی سٹیج تک پہنچ جاتی ہے جس سے بے شمار پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ اکثر اوقات بریسٹ کینسر ہونے کا پتہ نہیں چلتا۔ اگر عورتوں کو اس کی علامات معلوم ہوں تو وہ پہلی سٹیج پر آکر اپنا علاج کرا لیں جس سے انھیں تکلیف بھی کم ہو اور پیسہ بھی کم خرچ ہو لیکن پاکستان میں زیادہ ترخواتین سٹیج فور پر ہو تی ہیں تو انھیں پتہ چلتا ہے کہ وہ موذی مرض میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بیماری سے متعلق پہلی چیز آگہی ہے۔ تعلیمیافتہ خوا تین کو بھی بریسٹ کینسر سے متعلق آگہی نہیں ہو تی۔ اسلیے انھیں بھی تا خیر سے احساس ہو تا ہے۔ ڈا کٹروں کا کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر کی کئی علامات ہیں مثلاً چھاتی میں درد ہو نا، گلٹی ظا ہر ہو نا، چھاتی کا گرم ہونا، نپل اندر دھنس جانا، چھاتی کا رنگ بد ل جانا، چھاتی کی جلد کا سکڑنا، چھاتی کا بہنا ہو نا یا کو ئی غیر معمولی تبدیلی الارمنگ ہو تی ہے۔ اِسے نظر انداز کرنا زندگی کو خود موت کے حوالے کر نا ہے۔ ڈا کٹر عائشہ شوکت نے اعداد و شمار پیش کئے، ڈاکٹر عباس کھوکھر نے میو ہسپتال کی کینسر کے لیے کی جانیوالی کو ششوں اور کاوشوں کو بیان کیا۔ پروفیسر زیبا نے بہت خوبصورتی سے مو ضوع کا احاطہ کیا۔ کینسر میں مبتلا ایک خاتون کی بیٹی نے اپنی مشکلات اور ڈاکٹروں و پیرا میڈیکل سٹاف کے رویے سے متعلق بات کی۔ اس مو قع پر میں نے بطور گیسٹ سپیکر بریسٹ کینسر کے حوالے سے لا علمی، غفلت، لاپرواہی بیان کی جس کی وجہ سے مریضوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کینسر کے مریض جس درد تکلیف اذیت اور ٹینشن سے گزرتے ہیں۔ خاص طو ر پر یہ تمام امراض میں سے مہنگا ترین علاج ہے۔ مریض علاج کراتے کراتے اپنے گھر کا سارا سامان بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ گاڑی جیولری پلاٹ یہاں تک کے گھر بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس بیمار ی کی جہاں تکلیف بیان سے باہر ہے وہاں علاج کے اخراجات مریض اور اُس کے خاندان کے لیے نا قا بلِ برداشت ہو تے ہیں۔ مریض کو بیماری سے زیادہ اخراجات کا خوف کھا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ بد قسمتی سے یہ بیماری پاکستان میں اسقدر تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ میں نے کہا کہ کینسر کے علاج کے کئی مراحل ہیں۔ صرف تشخیص کے لیے ٹیسٹوں پر ایک لاکھ سے زیادہ رقم لگ جاتی ہے۔ اگر یہ ٹیسٹ رپورٹس کو ئی دوسرا پرا ئیویٹ ہسپتال قبول نہ کرے تو دوبارہ ٹیسٹ لیے جاتے ہیںاور صرف ٹیسٹوں پر دو ڈھائی لاکھ روپیہ لگ جاتا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں بریسٹ کینسر پر ساٹھ ستر لاکھ روپے خرچہ آتا ہے جو مریض کو مسلسل خوف اور ٹینشن میں مبتلا رکھتا ہے جس کی وجہ سے مریض جلدی ٹھیک نہیں ہو تا۔ بریسٹ کینسر میں ٹیسٹوں کے بعد کیمو تھراپی، سرجری، ریڈی ایشن، ٹارگیٹڈ تھراپی، پیتھالوجی، فزیوتھراپی وغیرہ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ اس میں سے کیمو تھراپی سب سے مشکل ترین مرحلہ ہے جو مریض کو سر سے پائوں تک ہلاِ دیتا ہے۔ مریض چلتی پھرتی لاش بن جاتا ہے۔ اگر بروقت تشخیص اور علاج ہو جائے تو مریض کو یہ سار ی اذیتیں نہ اٹھانی پڑیں۔ اس لیے بریسٹ کینسر سے آگہی پہلا قدم ہے۔ بد قسمتی سے ایشیائی ممالک میں ہر نو میں سے ایک عورت بریسٹ کینسر میں مبتلا ہو رہی ہے۔ یہ تیزی سے پاکستان میں پھیل رہا ہے اور اس وقت ایشیاء میں سب سے زیادہ شرح 19.33 فیصد ہمارے ملک میں ہے اور ورلڈ رینکنگ میں پاکستان کا 58واں نمبرہے اور تقریباً ہر سال پاکستان میں42 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہو جاتی ہیں جبکہ انڈیا میں اس کی شرح سب سے کم ہے۔ہمارے ہاں 40.7 فیصد عورتیں کینسر کی بجائے درد کی دوسری ادویات لیکر مرض میں اضا فہ کرتی ہیں۔40 سال سے زائد عورتوں میں کینسر کے امکانات زیادہ ہو تے ہیں۔ اس لیے ہر لڑکی اور عورت کو اپنا معائنہ ہر ماہ ضرور کرنا چاہیے۔