افواج پاکستان کا قدرتی آفات میں مثالی کردار!
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشتگردی سے نجات دلانے کیلئے فوج نے بڑی قربانیاں دی ہیں، عوام کی مکمل سپورٹ اور اعتماد سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کیں۔ سربراہ پاک فوج کا کہنا تھا ملک کی حفاظت مضبوط ہاتھوں میں ہے،ہمیشہ الرٹ رہیں اورملک کیخلاف سازشوں کوشکست اورجواب دینے کیلئے تیار رہیں،کسی ملک، گروپ یا تنظیم کو پاکستان کو سیاسی یا معاشی غیرمستحکم کرنے نہیں دیا جائے گا۔حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اورسیاسی جماعتوں کاافسوسناک کردار برے طریقے سے بے نقاب ہواہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس متاثرین کو ریلیف دینے کا کوئی قابل عمل میکنزم ووڑن موجود ہی نہ تھا اورنہ ہی کہیں فوری امداد کی ترسیل کیلئے سیاسی جماعتوں کی تنظیمی فعالیت دیکھنے میں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں میں سب سیزیادہ نمایاں کردارہمیشہ کیطرح پاک فوج کا نظرآیا جووطنِ عزیز کا ایک ایسا ادارہ ہے جس نے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ہمیشہ ملک کی تعمیروترقی میں ایک ٹھوس ومثبت کردار ادا کیا۔زمانہ جنگ ہو یا امن، پاکستان کی مسلح افواج ہر وقت وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے سرگرم عمل رہتی ہیں۔سیا چن گلیشیئر سے لے کر سندھ کے ریگزاروں، سوات آپریشن سے آپریشن ردالفساداورسمندروں تک ہر جگہ پاکستان کی بہادر افواج اپنے خون سے عزم،ہمت واستقلال کی داستان رقم کی ہے۔پاکستان کو دہشتگردی کے عفریت سے جسطرح ہماری افواج نے نکالا اسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔بلوچستان، وزیرستان اورکراچی میں امن کی بحالی اوراستحکام افواجِ پاکستان، عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کے ذریعے ہی ممکن ہواہے۔ قیامت خیز زلزلہ ہو،تباہ کن سیلاب،کرونا وبا کی مصیبتیں ہوں یا دیگر ہنگامی حالات،پاکستان مسلح افواج نے ہمیشہ ہراول دستے کے طور پرقوم کیخدمت کی اور انہیں قدرتی آفات اور مصائب سے محفوظ رکھنے میں مثالی کردار ادا کیا۔کرونا وبا کے دوران اداروں کومضبوط بنانے کیلئے این سی او سی جیسا ادارہ قائم کیااوراب سیلاب آفت سے نمٹنے کیلیے ملک بھر ریلیف سرگرمیوں میں لیڈ رول ادا کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملک بھر مختلف علاقوں کے دورہ کییاورریلیف سرگرمیوں میں حصہ لینے والے فوجی جوانوں سے ملاقاتیں کی۔ پاکستان آرمی نے ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں باقی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیااورباقاعدہ ایک ادارہ Army Flood Protection and Relief Organization (197) دیا۔کراچی میں اس سال بارشیں معمول سے کہیں زیادہ ہوئیں،شہر قائد تقریباً آدھے سے زیادہ پانی سے بھر گیا جس نے شہری زندگی کو شدید متاثر کیا۔پاک فوج نے 83 نکاسی آب کے آلات، 20 کشتیوں اور دیگر ضروری مشینری اور سازوسامان کے ساتھ آپریشن کا آغاز کیا۔ دادو میں زیرتعمیر گاج ڈیم کے حفاظتی بند ٹوٹنے سے 50 سے زائد دیہات سیلابی ریلے کی لپیٹ میں آگئے، یہاں فوج نے 8 ہندو خاندانوں سمیت متاثرین کو بذریعہ ہیلی کاپٹرز ریسکیو کیا، میڈیکل کیمپس لگائے،جہاں لوگوں کوطبی سہولیات کیساتھ راشن بھی فراہم کیا گیا۔
بلوچستان جو پاکستان کے کل رقبے کا 42 فیصد ہے،موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا، سیکڑوں افراد جانیں گنوا بیٹھے ہیں، ہزاروں مکانات منہدم ہوئے، سڑکیں اوررابطہ پل بہہ گئے جبکہ ڈیم ٹوٹنے سے بے پناہ نقصانات ہوئے۔ بلوچستان کے متعدد اضلاع کوئٹہ سمیت بولان، ڑوب، دکی، قلعہ سیف اللہ، خضدار، کوہلو، کیچ، مستونگ، لسبیلہ اور سبی شدید تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پرریسکیو اوربحالی آپریشن شروع کیے جہاں میڈیکل کیمپس میں علاج معالجے کی مفت سہولیات وادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔پاک فوج کی طرف سے سیلاب زدگان کو ریلیف دینے کے حوالے سے کمٹمنٹ کا یہ عالم تھا کہ کور کمانڈر کوئٹہ بذات خود ریلیف کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور اسی دوران جنرل سرفراز علی سمیت دیگر افسران اور جوانوں کی جام شہادت نوش کیا۔صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے تباہی مچادی۔
ان حالات میں پاکستان کی مسلح افواج نیایک مربوط پلان کے زریعے ڈی جی خان کے 300 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا، 2000 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 50 سے زائد ریلیف کیمپ قائم کیے گئے جہاں 5562 افراد کوپناہ دی گئی۔صوبہ خیبرپختونخوامیں مسلسل بارشوں سے سڑکوں کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا، پاک فوج امدادی کوششوں کے سبب زندگی کومحفوظ رکھنے کاعمل جاری ہے۔پاک فوج کی جانب سے تاحال تین ہزار سے زائد متاثرین میں راشن تقسیم اوردوہزار سے زائد مریضوں کا علاج ہوچکا ہے۔پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کمراٹ میں پھنسے ہوئیسیاحوں کومحفوظ طریقے سے نکال کر اسلام آباد پہنچایا گیا۔ ریلیف سرگرمیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔