اُستادِ محترم تیری عظمت کو سلام
آہ پروفیسر حفیظ جنجوعہ !آپ ادا کار نہیں تھے کہ میڈیا آپ کو اہمیت دیتا جنجوعہ صاحب ! آپ کھلاڑی بھی تو نہیں تھے آپ کی خبریں نشر ہوتیں آپ لینڈ مافیا،ڈرگ مافیا، یا کسی بھی مافیا سے تعلق نہ رکھتے تھے کہ آپ پر توجہ دی جاتی؟آپ نے ٹیچر پروفیسر ،پرنسپل ، ای ڈی اوتعلیم اور ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن کے عہدے پر کرپشن اور کسی کی خوشامد نہ کر کے بہت بڑی غلطی کی تو کیوں آپ کو الیکٹرانک میڈیا میں شہرت دی جائے یا پرنٹ میڈیا میں خبروں اور مضامین کی زینت بنایا جائے۔آپ نے دورانِ ملازمت اساتذہ کی تربیت کیلئے ان میں نظریہ پاکستان کی ترویج اور عشق مصطفی ﷺ کی لو لگانے والی جماعت بنوائی اور ملک کے کونے کونے میں جا کر قوم ملک کی خدمت کا جذبہ اُجاگر کرنے کا جرم کیا ۔انجمن اساتذہ پاکستان کے بانیوں اور مرکزی صدر ہونا بھی اچھا نہ تھا آپ کوئی سنگر گائیک بھی تو نہ تھے آپ تو عشق مصطفیﷺ سے لبریز نعت خوانی کیا کرتے تھے۔ٹھیک ہے آپ میڈیا کے محتاج نہیں اللہ تعالیٰ خود اُن نیک اور فرماں بردار طلباء کی شکل میں آپ کا نام زندہ رکھے گا۔لیکن دانشور،صحافی اور ملکی ترقی و خوشحالی کے نام نہاد درد میں مبتلا حکمرانوں سے پوچھ لینے دیجئے۔آپ کہ یہ کیوں معلوم نہیں کہ امریکہ میں تین طرح کے لوگوں کو VIPکا درجہ حاصل ہے (۱)معذور(۲)سائنسدان(۳)ٹیچرز۔فرانس کی عدالت میں ٹیچر کے سوا کسی کو کرسی پیش نہیں کی جاتی ۔جاپان میں پولیس کو ٹیچر کی گرفتاری سے پہلے حکومت سے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑتا ہے ۔کوریا میں کوئی بھی ٹیچر اپنا کارڈ دکھا کر ان تمام سہولیات سے استفادہ کر سکتا ہے جو ہمارے ملک میں وزراء ایم این اے،ایم پی اے کو حاصل ہیں۔ایسی بہت سی مثالیں ترقی یافتہ ممالک کی جن میں اساتذہ کو خصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے دی جا سکتی ہیں ۔اسلام تو سب سے زیادہ مقام عطا کرتا ہے حضرت علی ؓ کا فرمان ہے ’’ علماء کی بد حالی قوم کا زوال ہے‘‘۔
افسوس پروفیسر حفیظ جنجوعہ صاحب مرحوم نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قوم کی خدمت کیلئے سیاسی پلیٹ فارم بھی استعمال کیا مگر اسے بھی روائتی سیاستدانوں کی طرح نہ اپنا سکے۔وہ سیاسی پلیٹ فارم سے دوسروں کو گالیاں کرپشن کے الزامات عوام کو گمراہ کرنے کیلئے مکروفریب اور جھوٹے وعدے کرنے کا سلیقہ نہ جانتے تھے۔انہوں نے بقائے پاکستان کے نام سے پارٹی بنائی اور مجھے اس کا سنیئر نائب صدر مقرر کیا میں نے بہت سمجھایا کہ آپکے دامن پر رسوائی کا کوئی داغ نہیں اور نہ ہی آپ کے پاس لوٹ مار یا کرپشن کا پیسہ ہے جس سے میڈیا اور لوٹے کارکنوں کے نخرے اُٹھا سکیں سیاست عبادت ہے لیکن اب اس کیلئے عوام میں شعور وآگہی بیدار کرنا ہو گی آخر کار حالات کے تھپیڑوں اور اپنوں سے مایوسیوں نے میری باتوں کو سچ مانتے ہوئے میری ہی مشاورت سے جمعیت العلمائے پاکستان کی جانب سے مرکزی نائب صدر کے عہدہ کی پیشکش قبول کر لی اور اسی پلیٹ فارم اور اسی عہدہ پر اللہ کو پیارے ہوئے۔سوال یہ نہیں کہ کھلاڑیوں اور اداکاروں وغیرہ کو میڈیاپر پذیرائی کیوں حاصل ہے مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات تعلیم ہونا چاہیے ملکہ الزبتھ سے منسوب واقعہ ہے ڈاکٹرز انجینئر ججزنے اپنی تنخواہیں اساتذہ کے برابر کرنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا وہ آپ سے زیادہ مقام پر فائز ہیں کہ انہوں نے ہی آپ کو اس مقام پر پہنچایا تو آپ نے یہ مراتب حاصل کیے۔
ہمیں اساتذہ ،اہلِ دانش علماء اور حرمتِ قلم کے پاسدار صحافیوں کو انکا مقام دینا ہو گا پھر دیکھئے گا کیسے فطین ذہن دماغ ٹیچر بننے کو ترجیح دیتے اور جب یہ قابل طبقہ تعلیم کے میدان کا رخ کریگا ہم تعلیم یافتہ قوم بن کر ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہوں گے۔ میرا اربابِ تعلیم سے مطالبہ ہے کہ چونیاں کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کو پروفیسر حفیظ جنجوعہ کے نام سے منسوب کر کے چونیاں کے اس سپوت کو شایانِ شان خراج عقیدت پیش کیا جائے ۔اُن کے گہرے دوست بلکہ لنگوٹیے کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ڈاکٹر کرارحیدر صاحب انجمن اساتذہ پاکستان کے زعمااور جمیعت العلماء پاکستان کی قیادت اُنکے شاگردوں اور خصوصاًاُن کے بیٹوں کو اُن کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت کو مزید اُجاگر کر کے عوام تک اُنہیں پہنچانا ہوگا۔جیسے میرا مطالبہ کسی بڑے تعلیمی ادارہ کو اُن کے نام سے منسوب کرنے کا ہے ۔پذیرائی دلانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
روشنی دینے والے کو بھی
اِک دِیا چاہیے اپنے گھر کیلئے
٭…٭…٭