• news

کیا پانی تیسری عالمگیر جنگ کی وجہ بنے گا؟


ایک عرصے سے سن رہے تھے کہ اب جنگیں پانی کے لیے ہوا کریں گی۔ پانی کے لیے جنگیں؟ کچھ لوگوں کے لیے شاید ایسا سوچنا ناقابلِ یقین ہو مگر جو لوگ دیہات میں رہتے ہیں وہ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں غیرت کے بعد سب سے زیادہ قتل پانی کے تنازعات پر ہوتے رہے ہیں۔ ہمارا ملک زرعی ملک ہے۔ آبپاشی کا ایک مضبوط اور مربوط نظام ہوا کرتا تھا۔ کھیتوں کو پانی کے لگانے کے تنازعات قتل و غارت تک پہنچ جاتے تھے۔ کسان کو علم ہے کہ اس کی فصل کو پانی دستیاب نہ ہوگا تو اس کے بچے بھوکے مر جائیں گے۔پانی پر جنگوں کی بات آگے بڑھی تو کہا جانے لگا کہ تیسری عالمی جنگ بھی اسی تنازع پر ہو گی۔ کرغیزستان اور تاجکستان کے مابین پانی ہی کے مسئلہ پر دو تین بار چھوٹی جنگیں ہو چکی ہیں جن میں سیکڑوں لوگ ہلاک ،ہزاروں بے گھر ہوئے اور ان جنگوں میں فریقین کے پاس موجود جہازوں ،راکٹوں، میزائلوں ،ٹینک اورتوپوں سمیت ہر طرح کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔ دریائے نیل کئی ممالک سے گزرتا ہے اب اس کے پانی کے تنازع پر ترکی ،عراق، شام اور دیگر بندوقیں تانے کھڑے ہیں۔میکسیکو میں ایک انٹرنیشنل برانڈ کے کولڈ ڈرنگ کے پلانٹ پر عوام کی طرف سے حملہ کر دیا گیا۔ یہ کمپنی میلوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی پروڈکٹ کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ دہائیوں سے وہ زیر زمین موجود پانی استعمال کر رہی تھی جس سے پانی کی سطح سیکڑوں فٹ نیچے چلی گئی۔ اس پر حملہ آور واویلا کر رہے تھے۔ اب میکسیکو حکومت اس علاقے میں واٹر چارجنگ کے لیے پلاننگ کر رہی ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو اگر سب سے بہتات میں کوئی چیز جو انسان کی بنیادی ضرورت کی ہے وہ ہے ہوا اور اس کے بعد پانی۔ ہوا کو آلودہ کرنے میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ پانی کا بے دریغ بلکہ بے رحمی سے جو استعمال ہوتا ہے وہ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ پانی آپ جیسے بھی استعمال کریں، کرتے رہیں مگر تباہ کن صورت حال بہت پیدا ہوتی ہے جب آپ پانی کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کرتے ۔آج سے 50سال قبل کے گائوں کو تصور میں لائیں، چھوٹے سے چھوٹے گائوں میں ایک تالاب ہوتا تھا۔ کئی بڑے دیہات میں دو یا زائد بھی ہوتے تھے۔ انہی تالابوں کو ٹوبے اور چھپڑ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ان میں مال مویشی کو پانی پلایا جاتا، نہلایا جاتا، مچھلیاں تک ان میں ہوتی تھیں۔ یہ دراصل واٹر چارجنگ کے لیے ہوتے تھے۔ بارش کا پانی یاکھال سے پانی دیا جاتا تھا۔ نہ وہ گائوں رہے نہ ٹوبے رہے۔دیہات میں بھی پانی کی سطح گہری ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں کولڈ ڈرنک اور پانی کی فیکٹری اب سادہ پانی بھی بوتلوں میں ملتا ہے۔ یہ فیکٹریاں فری پانی استعمال کرتی ہیں اور ٹیکس بھی تو ایک لیٹر پر چند پیسے ہے، ایک روپے سے بھی کم جبکہ سادہ پانی کی بوتل کتنے میں ملتی ہے۔ ٹرین اور بسوں میں سفر کے دوران ان کے ریٹ ڈبل ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ جتنا چاہیں پانی استعمال کریں ان کو کھلی چھٹی دے دی مگر ان کے ذمہ لگا دیں کہ زیرزمین پانی کی سطح کو نہ صرف ایک سطح پر برقرار رکھیں گے بلکہ اوپر بھی لائیں گے۔ اس حوالے سے ریسرچ اور پلانٹس کی تنصیب ان کے ذمے لگا دی جائے۔
پاکستان کے پانی کا منبع بھارت کے تسلط میں ہے۔ زیادہ تر پانی مقبوضہ کشمیر سے آتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ ایک بڑی نان سینس تھی۔ آپ نے دریا کے دریا بھارت کے حوالے کر دیئے۔ وہ بدنیت ملک ہے سندھ طاس معاہدے پر بھی عمل نہیں کرتا۔ پاکستان کے حصے کے پانی کو اس طرح کنٹرول کرتا ہے کہ جب چاہے پاکستان میں خشک سالی پیدا کر دے ،جب چاہے سیلاب میں ڈبو دے۔ رواں سال ایک بار پھر ایسا ہی ہوا ہے۔ اب اسے پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ہر دس سال بعد پاکستان کی طرف پانی کھول کر معیشت کا بیڑا غرق کر دیا کرے ،ایسا وہ کر بھی رہا ہے۔ پانی کا مسئلہ ہرگزرتے دن کے ساتھ گھمبیر ہو رہا ہے۔ اس کے حل کی طرف سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔جس حد تک پانی کی سطح گرچکی ہے اور وہ بھی پاکستان کے ہر علاقے میں، یہ صورت حال تشویشناک ہے۔ لاہور کی باتیں کریں تو راوی کنارے کی آبادیوں میں سروے کیا گیا جہاں پانی کی سطح 15میٹر ہوا کرتی تھی جو اب 45میٹر ہو گئی۔ راوی دریابہہ رہا تھا تو چارجنگ ہو جایا کرتی تھی۔ دریا بند ہے تو ، ایک تو چارجنگ رُک گئی دوسرے یہ ہوا کہ کیمیکل ملاپانی اور گندہ پانی زیر زمین جا کر صاف پانی کو بھی مضرِ صحت بنا رہا ہے۔
قارئین!موجودہ جاری جنگوں اور جن تنازعات کا لاوا ابھی پھٹنے کو ہے ان تمام کا محرک صرف پانی ہے ۔ایشیا میں آنے والے دنوں میں تیسری عالمگیر جنگ کا موجب پانی ہی بنے گا۔اس کے علاوہ میڈل ایسٹ گلف میں عربوں اور اسرائیل کے مابین وجہ تنازع بھی پانی ہی بن رہا ہے جب کہ سائوتھ امریکہ میں پاناما نہراور دوسرے پانی کے تنازعات شدت پکڑ رہے ہیں۔اسی طرح افریقہ کے تمام ممالک کے درمیان نہروں اور دریائوں پر بندھ باندھنے کی وجہ سے تنازعات شدت پکڑ رہے ہیں۔عالمی لیول پر پانی ایک بڑا مسئلہ قرار پا چکا ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان میں لاکھوں اور کروڑوں لیٹر پانی روزانہ کی بنیاد پر گاڑیاں دھونے کے لیے استعمال اور ضائع کیا جاتا ہے۔اسی طرح پاکستان میں نئے ڈیمز نہ بنانے کی وجہ سے بھارت کو پانی پر مناپلی کا موقع مل گیا ہے۔ اور آنے والے قریبی سالوں میں پاکستان شدید ترین خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔اور جب ہماری بھوک اور پیاس بڑھے گی تو لامحالہ ہم اپنی جان بچانے کے لیے بھارت کے ساتھ جنگیں شروع کریں گے اور آئندہ ہونے والی جنگ کوئی تلواروں ،نیزوں اور تیروں سے نہیں لڑی جائے گی بلکہ یہ ایک نیوکلیئر لڑائی ہو گی۔جس سے اس برصغیر ہند اور سائو تھ ایشیا میں تباہی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔اس لیے ہماری ریاست کو چاہیے کہ آپس کے جھگڑوں میں سے کچھ وقت نکال کر مستقل کی پلاننگ کریں اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ ورنہ …؟

ای پیپر-دی نیشن