نیب قانون : کیا کو ئی رہ گیا ہے جسے استشنی نہ ملا ہو : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربرا ہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کی۔ دورا ن سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنی نہ ملا ہو، تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنی ہوگئے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے جو غلط نہیں کہا جا سکتا، بظاہر افسران کو عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے، جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں آٹھ ارب سے زائد ریکوری ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی؟ خواجہ حارث نے کہا عوامی عہدیداروں کیلئے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی۔ جسٹس منصو ر علی شاہ نے کہا ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں، مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے، کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے قانون میں پھنس جائے گا۔ آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے۔ احتساب کیلئے دیگر ادارے بھی موجود ہیں، نیب قانون میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کا جرم آج بھی نیب قانون میں موجود ہے۔کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائین کا جائزہ بھی لے گی، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا نیب ترامیم میں نجی افراد کو جرائم کو نکال دیا گیا ہے۔آمدن سے زائد اثاثہ جات کا جرم نیب کیا ہے، اس جرم کی ہیت کو ترامیم تبدیل کردیا گیا۔آمدن سے زائد اثاثہ جات پر اس وقت کارروائی ہوگی جب کرپشن ثابت ہو چیف جسٹس نے کہا آپ کہہ رہے کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈی کریمینلائز کردیا گیا ہے۔ ریمانڈ کتنا ہو ضمانت کیسے ہوگی۔ ان ترامیم پر آپکا اعتراض نہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا یہ اچھی ترامیم ہیں ان پر اعتراض نہیں چیف جسٹس نے کہا آمدن سے زائد اثاثہ جات سمیت نیب قانون سے جرائم نکالے گئے، کیا ان جرائم کے خلاف دوسرے قوانین موجود ہیں۔ نیب ترامیم سے کونسے جرائم کر دئیے گئے۔ خواجہ حارث نے کہا آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کر کو ختم کر دیا گیا۔ نیب ترامیم میں یہی تو کلرایبل ایکسرسائیز ہوئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدالت پارلیمنٹ کے ساتھ چالاکی کو کیسے منسوب کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے جاتے اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں آمدن سے زائد اثاثہ جات میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکل کو کوئی عدالت آکر کہیں کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے۔ جرم ثابت کرنے کا بوجھ کس پر ہو گا۔ جسٹس منصور علی شاہ جرم ثابت کرنے کا بوجھ کتنا ہوگا۔ یہ بحث عدالت نہیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے چیف جسٹس نے کہا بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی توازن ہوتا ہے، عام شہری کے حقوق ہیں تو دوسری طرف قومی مفاد اور معاشرے کے بھی بنیادی حقوق ہیں، دونوں کے مابین توازن ہونا چاہیے، آپ انفرادی کو فائدہ ملنے کو معاشرے کے حقوق کے ساتھ لنک کر رہے ہیں، اگر دیگر فورمز پر کیسسز جائیں تو کیا ہوگا ہمیں اس پر معاونت درکار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا آپ کو اپنے دلائل مکمل کرنے کیلئے مزید کتنا وقت درکار ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا میں چار سماعتوں میں دلائل مکمل کر لونگا، چیف جسٹس نے کہا نیب قانون عوام مفاد کیلئے نقصان دہ کیسے ہے، یہ سوال اہم ہے، جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا پچاس کروڑ روپے کی کرپشن پر نیب کی کارروائی کی حد کم کرکے دس کروڑ بھی ہوسکتی ہے۔ ہمارا اعتراض نیب قانون کا اطلاق ماضی سے کرنے پر اعتراض ہے، جس کے بعد وقت کی کمی کے باعث مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی۔