معاشی حالت کی خرابی کے اصل ذمہ دار
اسٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور پی ایس او جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد کے جمہوری ادوار اور جنرل مشرف کے دور حکومت کے بعد سے اب تک کے جمہوری ادوار میں کبھی بھی منافع بخش نہیں بنے بلکہ اسٹیل ملز کو تو بند کردیا گیا ہے اور مبینہ طور پراربوں روپے کی مشینری چوری کرکے فروخت کی جاچکی ہے۔ اداروں کی تباہی کی اصل وجہ ہی سیاسی بنیاد پر سربراہوں کا تقرر‘ ضرورت سے کئی گنا زیادہ سیاسی و نااہل افراد کی بھرتی کے ساتھ ساتھ اداروں کو سیاسی مداخلت سے چلانا ہے۔ جس کی وجہ سے آج یہ چاروں قومی ادارے ملکی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔
یہی چاروں قومی ادارے اکتوبر 1999ء تک بھاری خسارے کا شکار تھے لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے آتے ہی ان چاروں قومی اداروں کا نہ صرف نقصان ختم ہوگیا بلکہ بھاری منافع میں چلے گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے ایم ڈی شیل پاکستان لمیٹڈ سے پوچھا کہ آپ کی کمپنی سالانہ 2ارب روپے منافع کما رہی ہے جبکہ پی ایس او کا ملکی پیٹرولیم کاروبار میں 65%حصہ ہونے کے باوجود بھاری خسارے کا شکار ہے تو انہوں نے کہا کہ پی ایس او کو نقصان سے نکالنے کے لئے آپ غیر سیاسی اور پروفیشنل شخص کو اس کا سربراہ بنائیں اور ادارے میں سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ کریں اور ضرورت سے زیادہ ملازمین کو مناسب گولڈ شیک ہینڈ دیکر اخراجات میں کمی لائیں تو یہ ادارہ منافع بخش بن جائے گا اور پھر جنرل پرویز مشرف نے ان کے مشورے پر عمل کیا تو دنیا نے دیکھا کہ پی ایس او ایک سال میں ہی زبردست منافع کمانے لگا اور اسٹاک مارکیٹ میں پی ایس او کے شیئر کی قیمت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا۔پی ایس او کے ملازمین نے بخوشی مناسب گولڈن شیک ہینڈ لیکر ادارے کو خیرباد کہا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف دور حکومت کے آخری چیئرمین اسٹیل ملز جنرل عبدالقیوم نے ایک تقریب میں بتایا تھا کہ اس وقت اسٹیل ملز کے اکاؤنٹ میں منافع کے 10ارب روپے رکھے ہیں۔
کیا اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ چاروں قومی ادارے خسارے سے نکل کر منافع بخش بن جائیں؟ میرے خیال سے تو ممکن ہے اگر خلوص نیت سے اداروں میں غیر سیاسی پروفیشنل سربراہ کا تقرر کردیا جائے ،مناسب گولڈن شیک ہینڈ کی پیشکش کرکے اضافی ملازمین کے بوجھ سے نجات حاصل کرلی جائے اور ادارے میں سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ کرلیا جائے تو یقیناً یہ بڑے قومی ادارے ایک بار پھر منافع بخش بن سکتے ہیں۔
ٹیکس کا ایسا نظام رائج ہے کہ جس میں ٹیکس محکمے کے ملازمین کو سالانہ سرکاری خزانے میں جانیوالی ٹیکس کی رقم سے زائد رقم حاصل ہوتی ہے۔ ٹیکس کی شرح جتنی زیادہ ہوگی‘ اتنی ہی محکمے کے ملازمین کی ذاتی جیبیں بھرتی رہیں گی اور اگر ٹیکس کی شرح کم رکھیں گے تو زیادہ سے زیادہ لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس دائرے میں شامل ہوکر باقاعدگی سے ٹیکس ادا کریں گے لیکن ایسا کرنے سے ٹیکس محکمے کے ملازمین کو ذاتی معاشی نقصان ہوگا۔یہاں اگر کوئی شخص اپنے کاروبار کا آغاز کرے تو ایک دن وفاقی ٹیکس محکمے کے لوگ آتے ہیں تو اگلے روز صوبائی اور پھر اس سے اگلے روز سٹی گورنمنٹ اور پھر یونین کونسل سمیت ان گنت سرکاری ٹیکس‘ لیویز‘ واجبات‘ فیس وغیرہ کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہا ہے اور کاروبار کرنے والا شخص ان معاملات سے عاجز آکر اپنا سرمایہ سمیٹ کر کسی دوسرے ملک کا رخ کرتا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی اور معاشی ابتری کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یہی ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں حکومتی ذمہ داران نے دن رات ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کاروباری طبقے کو ذہنی طور پر ہراساں کیا جس کے باعث ملک میں کاروباری ٹھہراؤ آگیا تھا اور کاروباری طبقے میں مسلسل خوف و ہراس کی فصاء قائم رہی۔ لیکن موجودہ حکومت بھی کوئی انقلابی معاشی فیصلے لینے میں تاخیر کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے ایمنسٹی اسکیم کی اشد ضرورت ہے لیکن ایسی ایمنسٹی اسکیم کی ضرورت ہے جس میں نہ تو ٹیکس محکمے کے افسران کی مدد کی ضرورت ہو اور نہ ہی وکلاء کی مدد کی۔ بلکہ ایسی ایمنسٹی اسکیم لائی جائے جس طرح جنرل ضیاء الحق شہید کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق لائے تھے کہ آپ کسی بھی کمرشل بینک میں جاکر ایمنسٹی اسکیم میں جتنی رقم یا اثاثے وہائٹ کرنا چاہتے ہیں اتنی رقم کا3%یا 5%جمع کرادیں تو وہی کمرشل بینک آپ کو مطلوبہ رقم وہائٹ کرنے کا سرٹیفکیٹ اسی وقت جاری کردے گا جو پچھلے دس سال کے کسی بھی ٹیکس کیس میں بھی قابل قبول ہوگا ۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے ایمنسٹی اسکیم میں جتنی رقم ملنے کا ہدف رکھا تھا اس سے کسی گنا زیادہ رقم قومی خزانے میں جمع ہوئی تھی ۔
اگر ڈاکٹر محبوب الحق طرز کی ایمنسٹی اسکیم لائی جائے تو نہ صرف ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ وہائٹ کی گئی رقم و اثاثے کاروباری مارکیٹ میں آنے سے معیشت میں بھی بہتری آئے گی ۔ آئے روز یہ خبریں آتی ہیں کہ کاروباری حضرات یا سرمایہ داروں نے کروڑوں اربوں روپے چھپا رکھے ہیں۔ اس چھپائی گئی رقم کو مناسب شرح سے وہائٹ کرنے کے حکومتی اعلان سے ملکی خزانے‘ معیشت اور بے روزگاری کی شرح میں نمایاں تبدیلی نظر آئے گی۔ ضرورت صرف خلوص نیت کی ہے۔ زبانی جمع خرچ سے معیشت و قومی ادارے بہتر نہیں کئے جاسکتے بلکہ عملی اقدامات سے ہی ملکی معیشت و قومی ادارے بہتر کئے جاسکتے ہیں۔