اردو زبان کے لیے بین الاقوامی درجہ: حقیقت کیا ہے؟
ہم پاکستانی ایک جذباتی قوم ہیں۔ اسی لیے ہم کسی چھوٹی سی بات پر حد سے زیادہ خوش یا مغموم ہونے کا رجحان رکھتے ہیں اور اس بارے میں تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ وہ بات سچی ہے یا جھوٹی۔ سوشل میڈیا کے فروغ نے ہمارے جذباتی پن کو مزید ہوا دی ہے اور اب آپ کو لاکھوں (بلکہ شاید کروڑوں) پاکستانی اکثر اوقات جھوٹی یا نیم سچی باتوں پر مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے یا پریشانی ہوتے اور شدید ردعمل دیتے نظر آتے ہیں۔ ایسے کسی موقع پر اگر کوئی خدا کا بندہ اصل بات تک پہنچ جائے اور پھر لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ جس بات پر خوشی کے شادیانے یا غمگین دھنیں بجائی جارہی ہیں اس کی حقیقت کیا ہے تو لوگ اس پر لعن طعن شروع کردیتے ہیں اور حسبِ موقع اسے ملک یا مذہب کا دشمن قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر کسی جھوٹی یا غلط بات کی تردید کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔
ایسے ہی ایک معاملے کا احوال سنیے جو ہے تو ڈیڑھ پونے دو سال پرانا لیکن سوشل میڈیا میں آج تک زندہ ہے۔ ممکن ہے میری طرح آپ کی نظر سے بھی یہ ’خوش خبری‘ گزری ہو کہ اقوام متحدہ نے اردو کو بین الاقوامی زبان کا درجہ دیدیا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا 2020ء کے اختتام یا 2021ء کے آغار پر نئے سال کا تہنیتی پیغام دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جاری کیا گیا۔ پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر کئی لوگ اس اخباری خبر کا سکرین شاٹ یا تصویر ایک دوسرے سے شیئر کر کے یوں مبارک بادیں دیتے رہے (اور کہیں کہیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے) جیسے سیکرٹری جنرل نے خود انھیں آ کر بتایا ہو کہ میں نے اردو زبان میں پیغام جاری کیا ہے۔ دراصل، اس خوش یا غلط فہمی کی بنیاد بھارت سے شائع ہونے والے اردو اخبار ’سچ کی آواز‘ میں چھپنے والی ایک خبر بنی جس میں بتایا گیا تھا کہ ’اردو اب اقوام متحدہ کی سرکاری زبان بن گئی ہے۔تاریخ میں پہلی بار اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کا اردو زبان میں پیغام جاری کیا گیا ہے، یہ ایک خوش آئند خبر ہے۔‘
قارئین کو مزید گمراہ کرنے کے لیے خبر کو جنیوا کی ’ڈیٹ لائن‘ اور ایجنسیوں کی ’کریڈٹ لائن‘ کے ساتھ چھاپا گیا۔ خبر میں آگے چل کر خبر نویس موصوف نے اپنی طرف سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے رہنماؤں کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا شکریہ بھی ادا کروا دیا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی دو ویب گاہوں، پرو پاکستانی اور نیٹ میگ، نے بغیر اس خبر کی تصدیق کیے انگریزی ترجمہ کر کے اسے چھاپ دیا۔ ایک اخبار اور دو ویب گاہوں پر خبر پڑھنے کے بعد لوگوں کو اس بات پر یقین ہوگیا کہ واقعی اقوامِ متحدہ کی جانب سے اردو کو بین الاقوامی زبان کا درجہ مل گیا ہے۔ اس خبر کی صداقت پر یقین کر کے اسے آگے بڑھانے والوں میں عام اور اوسط درجے کے پڑھے لکھے لوگ ہی شامل نہیں بلکہ پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین تعلیمی و تحقیقی سند کے حامل خواتین و حضرات بھی اس ’کارِ خیر‘ میں اپنا حصہ ڈالتے رہے، اور یہی زیادہ تشویش اور افسوس کی بات ہے کیونکہ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں سنی سنائی باتوں کو بغیر تصدیق کیے آگے بڑھانے کا رواج کس حد تک راسخ ہوچکا ہے۔
خیر، حقیقت یہ تھی کہ مذکورہ خبر اسے لکھنے والے کا حد سے بڑھا ہوا حسنِ ظن یا خوش فہمی تھی ورنہ اردو کو کوئی درجہ ورجہ نہیں ملا۔ دنیا کے 63 ممالک میں اقوامِ متحدہ کا ایک ذیلی دفتر United Nations Information Center یا اقوام متحدہ مرکزِ اطلاعات کے نام سے قائم ہے۔ اس دفتر کی ذمہ داری ہے کہ یہ سیکرٹری جنرل کا ہر اہم پیغام یا اقوامِ متحدہ سے متعلق اہم خبریں وغیرہ متعلقہ ملک کی قومی زبان/زبانوں میں ترجمہ کر کے پیش کرے۔ پاکستان میں موجود مذکورہ دفتر نے سیکرٹری جنرل کا نئے سال کا تہنیتی پیغام اردو میں ترجمہ کر کے اپنے یوٹیوب چینل پر جاری کیا جسے خبر نویس نے اپنی مرضی کا رنگ دے لیا۔ اقوامِ متحدہ کی چھے سرکاری زبانیں عربی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور انگریزی ہیں، اور اقوام متحدہ کے صدر دفتر سے سرکاری طور پر صرف ان چھے زبانوں میں ہی پیغامات جاری ہوتے ہیں۔
آپ کے پاس کتنے ہی ثبوت، شواہد اور دلائل موجود کیوں نہ ہوں عام حالات میں ایسی بات ہمارے جذباتی لوگوں کو سمجھانا قریب قریب ناممکن ہے اور لوگوں کا یہ مزاج ایک دو دن یا چند برسوں میں نہیں بنا بلکہ دہائیوں یا شاید صدیوں میں اس کی تشکیل ہوئی ہے۔ اسی حوالے سے نامور ادیب، شاعر اور صحافی گوپال متل کی ایک بات یاد آگئی۔ وہ اپنی کتاب ’لاہور کا جو ذکر کیا‘ میں 1930ء کی دہائی کی صحافت کا حال لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پڑھنے والوں کا مذاق ایسا بن چکا تھا کہ چٹخا رے کے بغیر کام نہیں چلتا تھا۔‘ اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ گزشتہ نو دہائیوں کے دوران پڑھنے والوں کے چٹخارے دار مذاق میں کس قدر اضافہ ہوچکا ہوگا! بس اسی مذاق کو سامنے رکھتے ہوئے خبر نویس نے ایک عام سی بات کو زیبِ داستاں کے لیے یوں بڑھا چڑھا لیا کہ یار لوگوں نے مبارک بادوں کے ڈونگرے برسانے شروع کردیے۔