• news

ضمنی انتخابات، غور طلب پہلو

16  اکتوبر کے ضمنی انتخابات نے جہاں کئی اہم سوالوں کا جواب دیا ہے، وہاںکئی نئے سوالات کو جنم بھی دیا ہے۔ جن تین اہم سوالوں کا جواب ملا ہے، انمیں سے اس ایک بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ عمران خان پاکستان کا بلا شرکت غیرے اور بلا شک و شبہ ایک کرشماتی مقبول لیڈر ہے۔ دوسرے اہم سوال کا جواب کہ کیا غیر ملکی سازشی بیانیہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سیاسی و انتخابی افق پر چمک رہا ہے، تو جواب ‘‘ ہاں’’ میں ہے۔ کیااسٹیبلشمنٹ، وفاقی حکومت، یا الیکشن کمیشن مل کر انتخابات میں کسی کا مینڈیٹ چرا سکتے ہیں، یعنی دھاندلی کے ذریعہ ہارنے والے کو جتا سکتے ہیںیا اپنے زور پر جیتنے والے کو ہرا سکتے ہیں، اس تیسرے اہم سوال کا جواب ‘‘نہیں’’ میں ملا ہے۔ انتخابات میں اس پیمانہ پر منظم دھاندلی تقریباً ناممکن  ہے۔اب جن تین نئے سوالات نے جنم لیا ہے، ان کا جائزہ لینا یا ان کے جوابات تلاش کرنا انتہائی اہم ہے۔  سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ کیا ان ضمنی انتخابات کو ملک میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کا ایک ٹریلر یعنی جھلکی سمجھنا چاہیے یعنی پوری فلم ابھی باقی ہے، اور پوری فلم بھی اسی طرح کی ہوسکتی ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ کیا ان ضمنی انتخابات کے نتائج سیاسی جماعتوں کی عین توقعات کے مطابق آئے ہیں؟ اور تیسرا مگر سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ کیا عمران خان کی یہ کامیابی اتنی واضح اور بھرپور ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر نئے انتخابات کے لیے فیصلہ کن دباؤ ڈال سکیں گے؟ میری مراد ممکنہ لانگ مارچ سے ہے۔اب باری باری ان تین اہم سوالوں کے ممکنہ جوابات کا جائزہ لیتے ہیں۔ مگران سوالات کا درست جواب دینے کے لیے کْچھ حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا جن میں سب سے اہم ووٹر ٹرن آؤٹ ہے، ماضی کے ضمنی الیکشنز کے مقابلے میں ووٹرٹرن کہیں بہتر رہا ہے، خصوصاً پنجاب میں ووٹر ٹرن آؤٹ پچاس فی صد کے قریب بھی گیا ہے۔ اسکے بعد ووٹ ڈالنے کی شرح کے پی کے میں پنجاب کی نسبت کم رہی، جبکہ سندھ میں بہت زیادہ کم ووٹ ڈالے گئے کہا یہ جارہا ہے تھا کہ شاید ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم رہے گا، یعنی بیس فی صد کے قریب، جس کا نقصان عمران خان کو ہوگا، جبکہ ایسا نہیں ہوا، عمران خان نے ہر حلقہ میں خود انتخابی جلسوں سے خطاب کیا، جس کا نتیجہ بہتر ووٹر ٹرن آؤٹ کی صورت میں سامنے آیا، جس نے عمران خان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت، خصوصاً مسلم لیگی راہنما، بشمول مریم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف نہ صرف الیکشن کیمپین سے باہر تھے بلکہ مْلک سے ہی باہر تھے۔ آصف علی زرداری بیمار ہیں، شہباز شریف بحیثیت وزیراعظم اور بلاول بھٹو زرداری وفاقی وزیر ہونے کے ناطے انتخابی قوانین کے تحت انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن شاذ شاذ دکھائی دیے وہ بھی صرف کے پی کے میں۔ گویا پی ڈی ایم کی اوّل درجہ کی قیادت اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کی دو سیٹوں، اور پنجاب اسمبلی کی تین میں سے ایک سیٹ پر کامیابی اور ہاری ہوئی سیٹوں پر بھاری تعداد میں ووٹ لے جانا، کسی حد تک پی ڈی ایم کی کامیابی تصور کیا جانا چاہیے ۔ ان کے امیدواروں نے عمران خان کی مقبول ترین قیادت کے مقابلہ میں تن تنہا انتخابی میدان میں مقابلہ کی فضا پیدا کردی، خصوصاً کے پی کے میں جہاں نو سال سے تحریک انصاف کی اپنی صوبائی حکومت ہے، عمران خان کو جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑی، خصوصاً جمیعت علماء اسلام کے مولانا محمد قاسم کے مقابلہ میں وہ چند ہزارکے ووٹ سے جیت سکے، اسی طرح ایمل ولی خان نے بھی انکے مقابلہ میں پچاس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وائس   چیئر مین دونوں کو اس الیکشن میں شکست ہوئی ہے، عمران خان کراچی ملیر 2 کی نشست پر پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ سے شکست کھاگئے ۔کرکٹ کے کھیل میں اسے’’اپ سیٹ‘‘ کہتے ہیں جب ایک چیمپئن ٹیم کسی کمزور ٹیم سے ہار جا ئے جب کوئی بڑی ٹیم اپنے سے کم تر ٹیم سے ہار جائے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ٹیم ناقابل شکست نہیں رہی، اسے شکست دی جاسکتی ہے۔ اس ضمنی انتخاب کا ایک نتیجہ یہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ عمران خان ناقابل شکست نہیں رہے، انہیں ہرایا جاسکتا ہے۔ جبکہ ملتان میں شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی سے بیس ہزار کے بڑے مارجن سے ہار گئیں۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حالیہ ضمنی لیکشن آئندہ ہونے والے عام انتخابات کا ایک ٹریلر ہے۔ اب یہ ممکن ہے کہ ٹریلر کْچھ ہے اور فلم کْچھ اور ہو۔
دوسرے جنم لینے والے اہم سوال کا جواب یہ ہے کہ عمران خان اتنے سخت مقابلہ کی توقع نہیں کررہے تھے۔ خصوصاً ایسے صوبہ میں جہاں ان کی حکومت اپنی دوسری مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ البتہ حلقہ پشاور 5 سے وہ حاجی غلام احمد بلور کے مقابلہ میں آسانی سے جیت گئے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں کا فائدہ عمران خان کو ہوا، اور وہ کراچی کورنگی 1 والی سیٹ پر سید نیّر رضا کے مقابلہ میں با آسانی جیت گئے۔ مگر ووٹر ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ پی ڈی ایم کی نیم دلانہ الیکشن کیمپین یعنی میچ سے قبل ہی شکست تسلیم کرلینے والے رویہ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ نتائج ان کی توقع سے کم برے آئے ہیں ، بلکہ یہ نتیجہ حکمران اتحاد کے لیے قدرے اطمینان کا باعث ہے۔
اب سب سے اہم سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ آیا ضمنی انتخابات میں چھ سیٹوں پر کامیابی کے بعد جلد از جلد عام انتخابات کے لیے عمران خان آخری حد تک جائیں گے اور ایک فیصلہ کن لانگ مارچ کی کال دیں گے۔ اس کا جواب ہاں میں بھی ہے اور ناں میں بھی ہے۔ ہاں میں یوں ہے کہ وہ جلد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دیں گے، مگر ایک آخری اور فیصلہ کن آپشن کے طور پر نہیں۔ عمران خان یہ جان گئے ہیں کہ ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا چانس صرف نئے انتخابات ہیں، وہ اداروں پر اپنا دباؤ ضرور برقرار رکھیں گے، مگر اداروں کو چیلنج نہیں کریں گے۔ اور کوئی ایسی صورت پیدا نہیں کرنا چاہیں گے جہاں الیکشن کا امکان معدوم ہوجا ئے  یا کوئی تیسری قوت فائدہ اْٹھا کر پورے نظام کو چلتا کرے۔ اب عمر کے وہ اس حصہ میں ہیں کہ مزید پانچ سات سال جمہوری نظام کی بحالی کی جدوجہد میں ضائع نہیں کرسکتے۔ اوریہ جدوجہد وہ اکیلے بھی نہیں کرسکیں گے اور انہیں بادل نخواستہ ان سیاسی جماعتوں سے بھی ہاتھ ملانا پڑے گا جن کا وہ نام لینا بھی گورا کرتے ہیں تو صرف گالیوں یا دشنام طرازیوں کیلئے۔ اس حقیقت کو وہ جان چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے کر نہ تو وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ وہ احتجاج اور لانگ مارچ کریں گے مگر ایسا بڑے حساب کتاب سے Highly Calculatedہوگا۔اس ضمنی انتخاب کا دوسرا بڑا اثر حکومتی اتحاد پر ہوا ہے۔ انہیں بھی سْرنگ کے اس پار ایک روشنی دکھائی دی ہے۔ اس الیکشن میں جزوی کامیابی اور حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ انہیں اپنی خامیوں کا بھرپور ادراک بھی ہوگیا ہے۔ ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے انکے پاس مناسب وقت بھی ہے اور مواقع بھی ہیں۔ حکومتی اختیارات بھی ہیں۔ حکمران اتحاد بھی نہیں چاہے گا کہ گیم ان کے ہاتھ سے نکل ج جائے ۔ وہ بھی عمران خان کے احتجاج یا لانگ مارچ کو نپے تلے انداز سے ڈیل کرنے کی کوشش کریگا، تاکہ کوئی جمہوریت پر شب خون نہ مار سکے۔ اس وقت حکمران اتحاد اور اپوزیشن جو اکیلے عمران خان کی شکل موجود ہے، ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، اس کشتی میں ایسا سوراخ یا چھید کہ جس سے کسی طرح یہ کشتی ڈوب جائے۔ دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور نہ دونوں یہ چاہیں گے کہ اس کشتی کو کسی طوفان یا بھنور کا سامنا کرنا پڑے، کشتی کی سلامتی دونوں کے یکساں مفاد میں ہے، دونوں کو اب یہ اْمید بھی پیدا ہوگئی ہے کہ کشتی کے چپو ان دونوںمیں سے ہی کسی ایک کے ہاتھ میں آسکتے ہیں، تو بہتر ہے کہ ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے ۔ کشتی ڈوبنے سے بہتر ہے کہ کشتی کسی کنارے جا لگے۔

ای پیپر-دی نیشن