پاکستان ذمہ دار ملک!!!!
خطے میں امریکہ کی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے بھی کئی مسائل ہیں۔ اگر خطہ عدم استحکام کا شکار ہے تو اس میں امریکہ کی ناقص پالیسیوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکہ کے صدر جو بائیڈن ڈیمو کریٹک کانگریشنل کیمپین کمیٹی میں خطاب میں روس اور چین کا حوالہ دیتے پاکستان کو لپیٹ میں لیتے ہوئے پاکستان پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان کی چین اور روس سے بڑھتی ہوئی دوستی اصل مسئلہ ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن نے کسی اور کا غصہ پاکستان پر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ "پاکستان خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ اسے کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔" جب اپ چین اور روس کی بات کریں اور پاکستان کو لپیٹ میں لیں تو پھر سمجھ آتی ہے کہ پاکستان بہانہ ہے کہیں اور نشانہ ہے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ترین ہے اور امریکہ سمیت ساری دنیا اس سے بخوبی واقف ہے کہ اس پروگرام کی حفاظت کون کرتا ہے اور کس سطح پر رہتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی کی جاتی ہے۔ اس لیے امریکی صدر کے اس بیان پر پاکستان نے شدید ردعمل دیا اور ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ سیاسی قیادت نے امریکی صدر کے اس بیان کی مذمّت کرتے ہوئے بہترین انداز میں پاکستان کا نقطہ نظر بیان کیا بعد میں آرمی چیف کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں ایٹمی کمانڈ اور کنٹرول سٹرکچر پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سکیورٹی صورتحال کاجائزہ لیا گیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ذمہ دار ملک ہے اور پاکستان نے اپنی ایٹمی سکیورٹی رجیم مضبوط بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے ہیں،ملک کے سٹریٹجک اثاثوں کے سیکیورٹی انتظامات بھرپور ہیں۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک فوج ہر قسم کے خطرات سے ملک کے دفاع کے لیے تیار ہے۔
پاکستان ایٹمی صلاحیت رکھنے کے باوجود مختلف معاملات میں نہایت ذمہ داری، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سب سے زیادہ تکلیف ہے اور وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دنیا بھر میں جھوٹی مہم چلانے میں مصروف رہتا ہے۔ امریکی صدر کے بیان اور پاکستان کے مضبوط، جاندار موقف اور بھرپور جواب کے بعد امریکہ نے یوٹرن لیا ہے۔ چونکہ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور امریکہ کو خطے میں پاکستان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ اب امریکی صدر کے بیان کو غلط فہمی قرار دیا جا رہا ہے۔ جو بائیڈن کے بیان نے دنیا بھر میں غلط فہمی پیدا کر دی اور بھارت اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ پاکستانی حکام کے کامیاب دورہ امریکا کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان نیو کلیئر پروگرام کے حوالے سے بیان کو محض ایک غلط فہمی ہی کہا جا سکتا ہے اور اس بات کی تصدیق ڈیموکریٹک سینیٹر کریس وین ہولن نے کی ہے۔ کریس وین کہتے ہیں کہ "پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کی بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر اثر انداز ہونا نہیں تھا۔ اس بیانیے سے یہ بات ثابت ہے کہ صدر جو بائیڈن کی پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق غلط فہمی کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مسئلے سے دونوں ممالک کے تعلقات پرمنفی اثر آ سکتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی نظام انٹرنیشنل اٹامک انرجی اسوسیئشن کی تمام ریگولیشنز پر مکمل طورپر عمل پیرا ہے اور اس کا حفاظتی نظام عالمی سطح کے معیار پر قائم کیا گیا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے دنیا میں اپنے نیوکلیئر پروگرام کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ حفاظت یقینی بنا رہا ہے اور دنیا اس سے بخوبی واقف ہے۔ پاکستان دنیا کے ان اہم ممالک میں شامل ہے جو دنیا کی بہترین افواج کے ساتھ ساتھ اپنے نیوکلیئر پروگرام کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مکمل حفاظت اور استعمال کیلئے قابل قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔"
اب اس بیان کے بعد واضح ہوتا ہے کہ جو بائیڈن نے کسی غلط فہمی یا غلط معلومات پر اکتفا کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پاکستان جیسے ذمہ دار ملک کے بارے نہایت غیر ذمہ داری سے گفتگو کرتے ہوئے ایک غیر ضروری بحث کا آغاز کیا۔ اس بحث کا جلد خاتمہ ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ ضرور دیکھنا ہو گا کہ خطے میں پاکستان کی اہمیت کیا ہے اور پاکستان میں امن دنیا کے امن کے لیے کتنا ضروری ہے۔ پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو اس کا نقصان صرف پاکستان میں رہنے والوں کو نہیں ہو گا بلکہ دنیا کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ جیسا کہ افغانستان میں بدامنی کی قیمت دنیا آج تک ادا کر رہی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو سامنے رکھیں اور پھر یہ طے کریں کہ معاملات کو کیسے آگے بڑھانا ہے کیونکہ روس اور یوکرین کی جنگ بارے ماہرین کے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ یوکرین کو مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے، جنگی سامان فراہم کیا جا رہا ہے گوکہ یہ سب کچھ یورپ کو محفوظ بنانے کے نام پر ہو رہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ امریکہ کسی صورت روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو برداشت نہیں کر سکتا اور روس کو روکنے کے لیے وہ ہر حد تک جائے گا اور اس کشمکش میں ساری دنیا کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ روس یوکرین جنگ سے خطے میں بھی عدم توازن کی صورتحال پیدا ہو گی خطے کے دیگر ممالک کے مسائل میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس جنگ کی وجہ سے اب تک جو مسائل سامنے آئے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے ہرگز نہیں لیکن عالمی طاقتیں دنیا کے امن کو نہیں بلکہ اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور امریکہ کے مابین اختلافات بھی اچھی خبر نہیں۔ تیل کی پیداوار سے متعلق تنازع اور امریکی دھمکی پر سعودی عرب کے ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان کے چچازاد بھائی اور شہزادے سعود الشعلان نے کہا ہے کہ اگر کسی چیلنج کیا تو ہم سب جہاد اور شہادت کے لیے تیار ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے پر سعودی عرب کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودیہ کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ سعودیہ نے مغرب کو دھمکیوں کا بھرپور جواب دیتے ہوئے کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں جہاد کا اعلان کرتے ہوئے سب پر واضح کر دیا ہے۔ اس معاملے میں بھی پاکستان نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کیس تھا۔ یہ سارے مسائل امریکہ کی نامناسب حکمت عملی کی وجہ سے ہیں۔ امریکہ اپنے معاملات کو سلجھانے کے بجائے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نامناسب اور غیر ضروری بیان دے کر معاملات کو بگاڑنے کی کوشش کرنے کے بجائے حالات کا جائزہ لے اور خطے میں پائیدار امن کے لیے اتحادیوں کے ساتھ بہتر انداز میں بات چیت کرے۔