وزیراعظم بھی گورنر سندھ کے ذریعے ایم کیو ایم کو مطمئن نہ کرسکے
سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
کراچی میں تیسری مرتبہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کردئیے گئے ہیں۔ گزشتہ روز وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن کے درمیان اجلاس منعقد ہوا جس میں سندھ حکومت کی درخواست پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ سندھ حکومت نے درخواست کی تھی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات 3 ماہ کیلئے ملتوی کئے جائیں کیونکہ کراچی کے تمام پولنگ اسٹیشنز یا تو حساس ہیں یا پھر انتہائی حساس ہیں۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن نے کراچی کے پولنگ اسیشنز پر پولیس اور رینجرز تعینات کرنے کی درخواست کی جس پر وزارت داخلہ نے مؤقف اپنایا کہ پولیس اور رینجرز بطور کوئیک ریسپانس فورس بلائی جاسکتی ہے لیکن انتخابی عمل کی نگرانی اور امن و امان بحال رکھنے کیلئے پولیس اور رینجرز کی نفری دستیاب نہیں۔ یوں اس مرتبہ بھی کراچی کے عوام اپنے اس حق سے محروم کر دیئے گئے۔ اب الیکشن کمیشن نے نئی تاریخ کے فیصلے کیلئے 15 روز بعد دوبارہ اجلاس بلایا ہے۔ تاہم 23 اکتوبر کوہونے والے انتخابات قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری کی عدم موجودگی کے باعث ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ کراچی میں عوامی حلقے پہلے ہی اس بات پر چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ سندھ حکومت کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی حامی نہیں۔ اگرچہ ایم کیو ایم بطور پیپلز پارٹی کی حامی جماعت کے دونوں کے درمیان یہی مفاہمت ہوئی تھی کہ بلدیاتی انتخابات جلد کرائے جائیں گے۔ اس فیصلے سے ایم کیو ایم نے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور نو منتخب گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے ذریعے شکایت لے کر وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس پہنچ گئے۔ لیکن وہاں بھی انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا جس سے ایم کیو ایم کی شہر میں بہت سبکی ہو رہی ہے۔ ادھر ایم کیو ایم کے ناراض راہنما فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے ٹائی ٹینک کو سمندر برد قرار دیدیا ہے۔ جو بھی ہو عوام کا شکوہ یہی ہے کہ سندھ حکومت کراچی کے عوام سے مخلص نہیں اور ان کے حقوق سلب کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ عوام جو سندھ حکومت سے مکمل طور پر مایوس ہوچکی ہے یہی کہتی ہے کہ سندھ حکومت پاکستان کے ریونیو میں 70 فیصد حصہ ڈالنے والے شہر کو بس اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وسائل پر ان کا قبضہ رہے۔ انہوں نے بلدیاتی نمائندوں کے تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کیلئے کبھی واٹر بورڈ تو کبھی بلدیہ عظمی کراچی کو میئر کے تحت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں پھر کچھ عرصے بعد واپس صوبائی حکومت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ عوامی حلقوں کا یہی کہنا ہے کہ اس طرح عہدوں کے نام تبدیل کرنے اور سیاسی چال بازیوں سے کچھ حاصل نہیں،بلدیاتی اداروں کے تمام افسران اور حکومت خود کرپٹ ہیں، عہدوں کے نام بدلنے سے کرپشن ختم نہیں ہوگی۔ دوسری جانب بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے پر جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن عوام حکمرانوں کے ساتھ عدالتوں سے بھی مایوس ہوچکے ہیں۔ عوام کا یہی مؤقف ہے کہ سندھ حکومت جس طرح کرپشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور عوام کے تمام وسائل حکومتی اراکین ، وزراء اور مشیروں کی جیبوں میں جاتے ہیں ویسے ہی عدالت میں بھی عوام کو انصاف نہیں ملتا اور لوگوں کو عدالتوں میں دہکے کھانے پڑتے ہیں۔ سندھ میں صرف ایک ہی قانون ہے اور وہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، اسی طرح جس کے پاس پیسہ ہے قانون اور انصاف اسی کا ہے، جیسے گزشتہ دنوں شاہ رخ جتوئی کی عدالت سے بریت ہوئی ہے۔ عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی جس میں عدل و انصاف کو فوقیت حاصل ہے ،جرم سر زد ہونے پر اس طرح کے لوگوں کے لئے کوئی سزائیں کیوں نہیں ہیں۔ طاقتور لوگ کب تک با آسانی بڑے بڑے جرائم کرکے بری ہوتے رہیں گے۔ کب تک چھوٹے مجرموں کو سخت سزائیں اور بڑے مجرموں کو سہولیات فراہم ہوتی رہیں گی۔ کب تک ملک میں یہ نا انصافی ہوتی رہے گی۔ اگر حکمران ہوش کے ناخن نہیں لیتے تو وقت آئے گا اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ابھی تو اللہ نے رسی کو ڈھیل دی ہوئی ہے تو حکمرانوں کیلئے اب بھی وقت ہے وہ عوام کو انصاف فراہم کریں ورنہ لوگوں کی آہیں ، سسکیاں اور بددعائیں ایک دن رنگ لائیں گی اور اللہ حکمرانوں کی رسی کو کھینچ لے گا۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،