پاکستان کا ایف اے ٹی ایف سے بہتر ڈیل کا قومی امکان
قومی افق
عترت جعفری
اسلام آباد میں سردی بڑھ رہی ہے ،ڑالہ باری کے ساتھ بارش ا ور پہاڑوں پر برف باری کا امکان بیان کیا گیا ہے ،مگر سیاست ہے کہ دم نہیں لینے دے رہی ،زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نت نئے واقعات رونما نہ ہو رہے ہوں،اس لئے عام شہری کی زندگی میں چین کا فقدان ہے ،ابھی ضمنی الیکشن کا معرکہ ختم ہوا تھا توپی ٹی ائی کے لانگ مارچ کی اطلاعات عام ہوتی چلی جا رہی ہیں ،امریکی صدر کے پاکستان بارے بیان نے بھی اسلام آباد میں ارتعاش پیدا کیا ،سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے ار بوں ڈالر کی ضرورت ہے جس کا انتظام کوئی آسان بات نہیں رہی ہے ،عالمی کساد بازاری اور بڑی معیشتوں کی سست روی کی وجہ سے اب مدد کے زرائع محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں ،تاہم سیلاب ذدگان کی مدد تو کرنا ہے ان کو حالات کے دھارے پر تو نہیں چھوڑا جا سکتا ،اس لئے پیرس کے اندر ڈونر کانفرنس کی تیاری کی جا رہی جس کی میزبانی فرانس کرئے گا ،وزیر مملکت برائے خارجہ کے دوررہ فرانس کا ایک مقصد ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے جبکہ ان کے دورے کا ایک دوسرا مقصد سیلاب ذدگان کی بحالی کے لئے درکار مالی وسائل کو حاصل کرنے کے لئے ڈونر کانفرنس کے کامیاب انعقاد کو ممکن بنانا ہے ،یہ ہفتہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کے دوران پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکل آنے کا قوی امکان ہے ،ایف اے ٹی ایف کا اجلاس شروع ہو چکا ہے ،جبکہ21اکتوبر کو ادارے کا باضابطہ بیان سامنے آنے کا امکان ہے ،پاکستان نے پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر مکمل عمل کردیا ہے جس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف کی تنظیم پہلے ہی کر چکی ہے،بیرون ملک سے اچھی خبر تو آ ہی جائے گی مگر ضمنی الیکشن کے بعد بھی ملک میں استحکام کا پیدا نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے ،پی ٹی آئی کی 8نشستیں ان کے ارکان کے استعفوں کی وجہ سے خالی ہوئیںتھیں،ان میں سے سات پر پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان امیدوار تھے ، جبکہ ایک نشست پر پارٹی کے نائب صدر اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی امیدوار تھیں،ان حلقوں کی ووٹنگ کے نتایج دلچسپ بھی ہیںاور الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کو غور وفکر کی دعوت بھی دے رہیں ،حسب توقع عمران خان چھ نشستوں پر کامیاب ہوئے ،مگر جس ایک نشست پر ان کی پی پی پی کے ہاتھوں ہار ہوئی ہے وہ بڑے مارجن سے ہونے والی ہار ہے جبکہ ان کے مد مقابل کوئی بھاری بھرکم شخصیت کی بجائے ایک عام پارٹی کارکن تھے ،اسی طرح ملتان میں بھی پی ٹی آئی کو بڑے مارجن سے شکست ہوئی،یہ سوال اب اپنی جگہ موجود رہے گا،کہ پی ٹی آئی کی ان چھ حلقوں پر جیت صرف موارل کی حد تک فاہدہ دے گی ،پی ٹی آئی اسمبلی میں جاتی ہے یا نہیں ،ان چھ حلقوں پر ضمنی انتخابات کرانا پڑیں گے ،اور کروڑوں روپے کے مذید آخراجات کرنا ہوں گے ،پی پی پی کی عددی پوزیشن 2018ئ کے جنرل الیکشن کے بعد سے بہتر ہوتی چلی جا رہی ہے،تاہم اس جماعت کو پنجاب پر توجہ دینی چاہئے ،اس وقت اسلام آباد کا منظر کسی بند قلعے کا کا تاثر پیدا کر رہا ہے ، ہر طرف کنٹینررز پکڑ کر رکھے گئے ہیں ،اور عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ کے اعلان کا انتظارکیا جا رہا ہے ،جیسے ہی وہ کوئی حتمی اعلان کریں گے اسلام آباد کی سڑکوں کو بلاک کر دیا جائے گا ،پی ٹی آئی کی تحریک اور اس کو روکنے کے حکومتی عزم کی وجہ سے اسلام آباد میں خوف موجود ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا ،تاہم جو بھی ہونا ہے وہ اگر تصادم کی طرف طرف جاتا ہے تو اس کے نتائج کسی کے لئے بھی اچھے نہیں ہوں گے ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار واشنگٹن کی یا تراکے بعد اسلام آباد آ گئے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں ان کی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقات بہت اچھی رہی ہیں ،ملک کے عوام مہنگائی سے اکتا چکے ہیں ،اس ملک کے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خور ایک عذاب بن چکے ہیں اور ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا ،کم ازکم حکومت کو تو ایسے فیصلے نہیں کرنا چاہئے جن سے عوام کے بوجھ میں اضافہ ہو ،پیٹرولیم کی قیمتوں ہی کو دیکھ لیں ،عالمی قیمت میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافہ کا کوئی فائدہ صارفین کو نہیں ہوا ہے ،حکومت نے ڈیزل پر لیوی کم کی اور پیٹرول پر اس میںبھاری اضافہ کر کے صارفین کو فائدے سے محروم کر دیا ،، پٹرول پر لیوی میں 45 فیصد اضافہ کر دیا گیا، پٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی 47 روپے 26 پیسے فی لٹر کر دی گئی۔جبکہ اس سے قبل 32.42روپے فی لیٹر وصول کی جا رہی تھی ،14روپے84پیسے کا اضافہ کیا گیا ،، ڈیزل پر ڈویلپمنٹ لیوی میں 5 روپے 44 پیسے کمی کی گئی۔ڈیزل پرپی ڈی ایل 12 روپے 58 پیسے سے کم کر کے 7 روپے 14 پیسے فی لٹرکردی گئی جس سے ڈیزل صارفین کے لئے نرخ نہیں بڑھے تاہم پٹرول صارفین کو کوئی ریلیف نہ ملا۔اس طرح کے فیصلوں سے عوام کو مایوسی ہوئی ،سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جب سے منصب سے الگ ہوئے ہیں ،ٹیکس میں اضافے کی وکالت کرتے رہتے ہیں وہ پہلے ہی وزیر خزانہ کے طور پر پیٹرول کی قمیت میں بھاری اضافہ اور ٹیکس بڑھا کر ریکارڈ میں اپنا نام اونچا کر چکے ہیں ،جب ٹیکس کی شرحیں بڑھا کر ہی پیسہ اکھٹا کرنا ہے تو پھر اتنے بڑے ادارے رکھنے کا جواز تو نہیں ہے ،یہ کام تو بی کام فیل بھی کر سکتا ہے کہ ٹیکس بڑھاتے چلے جاو، ،پیٹرول کے نرخ
فوری کم کرنا چاہئے۔