پرویز الٰہی کی کامیابی
پاکستان میں سیاسی معاملات روزبروز تبدیل ہو رہے ہیں اور حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے سات میں سے چھ نشستیں جیت کر اپنے آپ کو سیاسی حقیقت کے طور پر منوا لیا ہے البتہ اب اگر آئندہ کے عام انتخابات جیت کر تحریک انصاف کی ملک میں حکومت قائم ہوتی ہے تو یہ اسکی برتری اور ٹھوس مقبولیت کا ثبوت ہوگا اور بہت ساری دیگر سیاسی جماعتوں کا سورج غروب ہو جائیگا۔ پاکستان تحریک انصاف ضمنی الیکشن کے دوران خیبر پختونخوا میں اپنی تینوں سیٹیں جیتنے میں سرخروہوئی اور خیبر پختونخوا ایک بار پر تحریک انصاف کا گڑھ ثابت ہوا ہے۔ خیبر پختو نوانے جن تین حلقوں میںالیکشن ہوئے ان میں مردان، چارسدہ اور پشاور شامل تھے۔ ان تینوں حلقوں میں عمران خان نے اے این پی کے غلام بلور ایمل ولی اور جے یو آئی (ف) کے مولانا قاسم کو شکست سے دو چار کیا۔ یادر ہے کہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اپنے اقتدار کی دوسری مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ اسکے باوجود اسکی مقبولیت قائم ہے بہر حال یہ سیاسی حقیقت بنتی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جوہر قسم کے حالات میں بازی پلٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا سہراعمران خان کے بعد اسکے نوجوان کارکنوں کو جاتا ہے جنہوں نے حسب سابق اس مرتبہ بھی سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ عمران خان اور نوجوان کارکنوں کا یہ براہ راست رابطہ کرشمہ انگیز نتائج سامنے لانے کا باعث ہے البتہ تحریک انصاف کو اب اس کرشمہ انگیزی کو برقرار رکھنے کیلئے ایسے قابل قبول لیڈروں کو سامنے لانا ہوگا جس پر کارکن پوری طرح اعتماد کر سکیں جن علاقوں میں عمران خان کی فتح ہوئی ہے اگر ان ساتوں میں تحریک انصاف کا کوئی مقامی رہنما اور امیدوار کھڑے ہوتے تو نتان مختلف بھی ہو سکتے تھے اگرچہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد لانگ مارچ اور احتجاج کی راہ بظاہر ہموار ہوگئی ہے اور اب تحر یک انصاف اس پوزیشن میں نظر آتی ہے کہ لانگ مارچ کر کے حکومت پر عام انتخابات کیلئے دباؤ بڑھانے اور تن تنہا سیاسی فیصلہ ساز پوزیشن لے سکے۔ اس سارے انتخاباتی مرحلے میں جہاں عمران خان کی خود الیکشن لڑنے کی حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی ،وہیں انکی صوبائی حکومتوں اور جماعت کی کارکردگی بھی سامنے آئی۔
پنجاب اور خیبر پختونخواہ جہاں عوام کو حکومتی اقدامات کے باعث سکھ کا سانس ملا ہے وہاں کی عوام نے کھل کر تحریک انصاف کی حمایت کی مگر کراچی کے الیکشن میں جہاں ڈبوں میں خود ووٹ ڈالے گئے اور بعدا زاں ویڈیو ریکارڈ والے ڈی وی آر بھی چھین لئے گئے ایسے حالات کا مستقبل میں مقابلہ کرنے کیلئے کوئی مزید ٹھوس حکمتِ عملی بنانی ہو گی۔ پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ علاقو ںمیں کام جاری رکھنا ہو گا اور وہاں کے لوگوں کی مکمل بحالی تک آرام سے بیٹھنا ممکن نہیں ورنہ جو ملتان میں ہوا ہے وہ دیگر حلقوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب پرویز الٰہی کی قیادت میں جو ترقی کا سفر شروع ہوا ہے اسے مزید آگے بڑھانا ہو گا، عوام کی فلاح کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کو جلد عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے، اب منصوبہ بندی سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور ان اقدامات کے بارے میں عوام کو اگاہی دینا بھی ضروری ہے۔ وزیراعلی کی قیادت میں اب تک جو فیصلہ کئے گئے اور عوامی فلاح کیلئے جو اقدامات ہوئے ہیں وہ اس وقت سیاسی میدان میں ان مخالفین کو چھکوں چوکوں جیسے محسوس ہو رہے ہیں، دیکھا جائے تو اس وقت وہ اوپننگ بیٹر کر طرح محالف ٹیم پر تابڑ توڑ حملے کئے جا رہے ہیں ۔مزید براں انہیں صحت، تعلیم اور محکمہ پولیس کی بہتری اور عوام کو فوری ریلیف دینا ہو گا۔ جہاں غریب لوگ بڑے بڑے بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور آئے روز پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے حقیقتاً عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ معاملات جن میں صوبائی حکومتیں عوام کو سُکھ فراہم کر سکتی ہیں وہ کیا جائے۔ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اور دو تہائی اکثریت حاصل کر نے کیلئے جہاں عمران حان کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی ضروری ہے وہیں پرویز الٰہی کی کامیابی بھی ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے براہ راست جڑی ہوئی ہیں۔