رشتے داری سب پہ بھاری
پہلے وقتوں میں رشتہ دار ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے تھے البتہ سوشل میڈیا کے اس دور میں رشتہ دار ایک دوسرے کا بلڈ پریشر بڑھا کر چلے جاتے ہیں۔ ماہرینِ سماجیات کیمطابق ''خاندانی یونٹس'' صحت مند معاشرے کے قیام کیلئے ازحد ضروری ہیں۔ خاندانی استحکام کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ رشتے داروں کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان سے گہرے روابط کیلئے ہر ممکنہ سعی کی جائے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ رشتہ داروں کے حقوق کی پامالی سے خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر آ جاتا ہے۔ جس سماج میں خونی رشتوں کو یکسر انداز کر دیا جائے تو ان سے کیونکر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں بھائی چارے کی فضا کو برقرار رکھ سکیں گے یا عام افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں گے۔ قارئین اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ رشتہ داروں کے حقوق میں کیا باتیں چیدہ چیدہ ہیں اگر ہم ایک دوسرے کے گھر آ جا رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا ہے تو جان لیجئے کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک ان پر احسان نہیں بلکہ فرض ہے۔ مالی تعاون،عزت و احترام اور عفوودرگزر خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ قارئین لفظ رشتہ دار میں مخصوص قسم کی کشش ثقل ہے کبھی آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ کوئی عزیز اگر قضائے الٰہی سے وفات پا جائے تو رشتہ داروں کی تسلی اور تعزیت مرہم کا کام دیتی ہے۔ لوگ اپنے اقارب کو دیکھ کر اطمینانِ قلبی حاصل کرتے ہوئے صبر کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی بیمار ہو تو یہ رشتہ دار ہی ہیں جن کی آمد سے دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور انسان اپنے تیئیں آپ یہ سوچتا ہے کہ ''میں دنیا کی اس بھیڑ میں تنہا نہیں ہوں ''۔ یقین کیجئے کہ جن حضرات نے رشتے داروں کے ساتھ قطع تعلق کیا ہوا ہے اور بات بات پر تکبرانہ انداز سے کہا جاتا ہے ''ان سے کہہ دو کہ ہم انہیں نہیں ملتے'' ان کی مثال معاشرے میں ان بیلوں جیسی ہے جو اپنے ریوڑ سے جدا ہو کر باسانی شیر کا نوالہ بن جاتے ہیں۔ مزید برآں مشاہدے میں آیا ہے کہ اکیلے رہنے والے گھمنڈی لوگ آہستہ آہستہ نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں کیونکہ انسان کو فطرتاً میل جول پسند ہے۔ نیز احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کی بہت تاکید کی گئی ہے اور قطع رحمی سے ڈرایا گیا ہے۔ مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سوشل میڈیا پر ددھیالی رشتہ داروں کو'' دشمن داٹبر، toxic رشتہ دار ''کا ٹائٹل دیا جا رہا ہے۔ ماموں لفظ کو مذاق کے معنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ''پھوپھو کی چالاکیاں'' جیسے فیس بک پیجز، ٹرینڈز یا ہیش ٹیگ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ینگ جنریشن کو کس راہ کی جانب گامزن کیا جا رہا ہے اور پھر اس پر کومنٹس کا ایک نہ تھمنے والا طوفانِ بدتمیزی۔! سب سے زیادہ کم بختی ان لوگوں کی آتی ہے جنہوں نے فیس بک پر اپنے رشتے داروں کو ایڈ کیا ہوتا ہے۔ اگر کسی نے کوئی سوٹ، واسکٹ یا جوتا مستعار لیا ہو اور اس پر نائس، واؤ یا گریٹ کے ریمارکس آئیں تو وہ رشتہ دار فوراً پکار اٹھتا ہے کہ یہ میرا فلاں رشتہ دار ہے اور یہ سوٹ میرا ہے سر عام لوگ ایک دوسرے کی عزت کی دھجیاں یہ کہہ کر اڑاتے ہیں کہ یہ جو فیس بک پر نواب بن کر شیخی بگاڑی جا رہی ہے۔ یہ تو ایسے تاثر دے رہے ہیں جیسا کہ ہم انکے کرتوت و کارناموں سے واقف ہی نہیں۔۔۔!!!
خدارا بڑے چھوٹوں کو احترام آدمیت کا درس دیں کہ خالہ، پھوپھو بڑے خوبصورت رشتے ہوتے ہیں۔ ان کا نام برائے مہربانی بدنام نہ کریں۔ جو لوگ یہ راگ الاپتے ہیں کہ پھوپھو مکار ہوتی ہے۔ اچھی نہیں ہوتی وہ ذرا سن لیں کہ انکی والدہ بھی کسی کی امی ہیں جنہیں وہ جان سے پیاری کہتے ہیں۔ دیکھئے یہ رشتے بہت ہی خوبصورت ہوتے ہیں، بگاڑ بگاڑ کر انکا نام تبدیل مت کریں۔ پھوپھو تو وہ ہوتی ہیں جنہوں نے آپکی پیدائش پر ڈھیروں خوشیاں منائی ہوتی ہیں۔ آپ کو رات کو تتلیوں، پرندوں کی دلچسپ کہانیاں اور فینٹسی کلپس کی وضاحت کر کے آپ کے بچپن میں رنگ بھرے ہوتے ہیں۔ اپنی پاکٹ منی سے آپ کیلئے سکول یا کالج سے واپسی پر چاکلیٹ، ٹافیاں، کھلونے خریدے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپکے ناز نخرے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہنس ہنس کر آپ سے ماریں کھائی ہوتی ہیں۔ الغرضیکہ آپ کے بچپن میں آپ کی پھوپھو نے آپ کی کتنی خدمت کی ہوتی ہے۔ جب لوگ سوشل میڈیا پر ان رشتوں کی توہین کرتے ہیں تو یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ پڑھا لکھا اور اعلی عہدوں پر متمکن طبقہ بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو جاہل،گنوار طبقہ کرتا ہے۔ مانا کہ کچھ رشتے دکھ پہنچاتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھرے معاشرے میں انکی عزت تار تار کریں۔ مقامِ تاسف کہ کم عقلی کے باعث اپنے مہذب خونی رشتوں کی توہین کر رہے ہیں۔ پہلی ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت میں اعلی اوصاف کو پیوست کریں۔ نند کو ڈریکولا یا ولن کے نام سے موسوم نہ کیا جائے۔ اگر بچے اپنے سگی پھوپھو کے ساتھ بدسلوکی یا بد تہذیبی کریں گے تو یقینا مستقبل قریب میں انکے بچے اپنے والد کی بہن کا تمسخر اڑاتے ہوئے انکے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھیں گے کیونکہ دنیا مکافات عمل ہے۔ قارئین سے التماس ہے کہ مخلص رشتوں کو مجبوریوں میں بھی ضائع نہ ہونے دیں کیونکہ مجبوری تو ختم ہو جائے گی لیکن ٹوٹے ہوئے رشتوں کا اعتماد جلد بحال نہیں ہوتا۔