• news
  • image

سراج اہلسنّت حافظ سراج احمد رحمۃ اللہ علیہ 

 پیکر حُب رسول مجسمہ سوز و درد 
  سیدمحمدفاروق القادری 
عشق در دنیائے ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد 
ورنہ ایں بزم خاموشاں ہیچ غوغائے نداشت 
 
اگرچہ سابق ریاست بہاولپور کا علاقہ مادی ترقی کے اعتبار سے پسماندہ رہا ہے تاہم علمی و روحانی لحاظ سے یہ خطہ انتہائی مردم خیز واقع ہوا ہے ، اس کی خاک سے ایسے ایسے شمس و قمر پیدا ہوئے ہیں جو اپنی مثال آپ تھے۔ علامۃ الدہر عبدالعزیز پرہاروی ، شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی ایسے فضلاء اور صوفیہ کرام میں عارف باللہ حضرت خواجہ غلام فرید اور مولانا لطف علی ایسے عدیم النظیر شعراء ، مولانا نور محمد کہتر ایسے نعت گو بھی اسی  سر زمین سے اٹھے۔ انگریز کے دم قدم سے پہلے بر صغیر کے کونے کونے میں عشق الٰہی  کے مرکز تھے جہاں سے جذب و شوق اور درد و محبت کا فیض جاری رہتا۔ حضرت حافظ سراج احمد صاحب کا اسی مٹی سے خمیراٹھایا گیا تھا وہ محبت نبوی میں اس طرح فنا ہو کر مٹ گئے تھے کہ انہیں درد و محبت اور سوز و عشق کے سوا کسی چیز سے تعلق ہی نہیں رہا تھا ۔ آپ نے حفظ قرآن مجید کے بعد اپنے دور کے نامور جید علمائے کرام سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور تکمیل کے لئے دور کے علمی مراکز کا رخ کیا۔ آپ نے امتیازی حیثیت میں سند فضیلت و فراغت حاصل کی اور اپنے آبائی علاقے میں تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ رُشد و ہدایت کیلئے  عشق  رسول ؐ کی راہ اپنائی۔ روح کے پیاسے لوگوں نے  آپ کے ہاںپروانہ وار رخ کیا حضرت حافظ صاحب نے مسجد مستری کمال الدین میں 50 سال تک جمعہ کے خطبہ کے ساتھ ساتھ نمازِ فجر کے بعد درس قرآن کا آغاز کیا ۔حضرت حافظ صاحب کی زندگی کے کئی پہلو ہیں وہ جید خوش آواز قاری قرآن ، دلوں کے مضراب چھیڑنے والے خطیب، شب بیدار سحر خیز، خوش اخلاق ، کشادہ دست، فراخ حوصلہ ، صوفیا کے طور طریقوں کے مطابق وسیع المشرب، اعلیٰ درجے کے منتظم ، خندہ رو اور سب سے بڑھ کر آنحضور ؐاور آپؐ کی ذات سے تعلق رکھنے والی ہر چیز سے عشق کرنے والے شخص تھے۔ 
آپ نے متعدد بار بیت اللہ اور روضہ رسول اللہؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ ساتھ جانے والے حضرات کا کہنا ہے کہ مدینہ منورہ جاتے تو بے خود ہو جاتے آنکھوں سے  برسات کی مانند آنسو رواں ہوتے ۔حضرت حافظ صاحب اس قدر گداز دل کے مالک تھے کہ انہیں ہر چیز میں خالق کائنات کا جلوہ نظر آتا۔ ایسے منفرد خطیب تھے کہ مترنم آواز میں خطبہ پڑھتے اور مولانا روم یا حضرت خواجہ غلام فرید علیہ الرحمۃ کے اشعار مکمل نہ ہوتے کہ خود بھی روتے اور مجمع پر بھی کیفیت طاری رہتی ، مولانا روم ، شیخ فرید الدین عطار، شیخ سعیدی ، حضرت جامی، امیر خسرو کے دیوان کے صد دیوان آپ کی نوک زبان تھے۔ اپنے پسندیدہ موضوع وحدت الوجود پر آتے تو قرآن مجید ، احادیث اور دیوان فرید کی روشنی میں تشریح فرماتے تو حاضرین کو بھی تن من کا ہوش نہ رہتا۔ خان پور شہر میں میلاد کے جلسے و جلوس منعقد کرنے کا بڑی محنت کے ساتھ اہتمام کیا ، اس پر کافی دکھ اٹھائے ، غم سمیٹے ، تکلیفیں برداشت کیں مگر مضبوط ہو کر ڈٹے رہے۔ 
حضرت حافظ صاحب ابتداء ہی سے رات کے پچھلے پہر کے تہجد گزار تھے سردی ہو یا گرمی سفر ہو یا حضر یہ سلسلہ لگاتار رہا۔حضرت حافظ صاحب نے سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس تعلق نے ان کے اندر سلسلہ چشتیہ کی خصوصی نسبت پیدا کر دی تھی ، سلسلہ عالیہ چشتیہ کی روایت کے مطابق سماع کی محافل میں شریک ہوتے تو آپ کا ذوق و شوق دیدنی ہوتا۔ ایک دفعہ جمعہ کے اجتماع میں ایک نعت خواں نے بابا ذہین شاہ تاجی کا یہ شعر پڑھا    ؎
خوش رہیں تیرے دیکھنے والے 
ورنہ کس نے خداکودیکھاہے 
تو حافظ صاحب  پر شدید گریہ طاری ہوگیا ، آپ نے اشارے سے یہ شعر بار بار دہرانے کا اشارہ کیا۔ ان کا سینہ اللہ اور رسول اللہ ؐکی محبت سے اس قدر معمور ہو گیا کہ اس میں کسی دوسری چیز کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی ۔یوں تو آپ تمام علماء کا احترام کرتے بالخصوص سادات کے سامنے تو بچھ جاتے ، غزالی زماں حضرت سید احمد سعید شاہ کاظمی کے ساتھ آپ کا تعلق عشق کی حد تک تھا۔ آپ نے مدرسہ سراج العلوم قائم فرمایا اور عید میلاد النبی کے سالانہ جشن کا آغاز کیا تو ہر جگہ حضرت کاظمی کو سیادت کا اعزاز بخشا۔ حضرت حافظ صاحب کا جنازہ علامہ سید احمد سعید کاظمی نے پڑھایا اور وہ سراج العلوم میں دارلحدیث کے ایک کونے میں محوِ خواب ہیں۔ بحمد اللہ العزیز آپ کے فرزند گرامی شیخ القرآن والحدیث حضرت مفتی مختار احمد درانی مدرسہ سراج العلوم میں آپ کی رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے اور سالانہ جلسہ بھی روز افزوں بلندی کی طرف گامزن ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن