• news

تاریخ ساز شخصیت خان عبدالقیوم خان 

آج 22 اکتوبر کو قائد اعظم کے دیرینہ ساتھی اور تحریک پاکستان کے صفِ اول کے عظیم رہنما خان عبدالقیوم خان کی 41 ویں برسی نہایت عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے جنہوں نے حضرت قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں ’’آزاد وطن‘‘ کے حصول کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اور دن رات مسلمانوں کو متحد کرنے اور انہیں تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طور پر شامل کرنے کے لیے بڑی تندہی اور سرگرمی سے کام کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانان برصغیر نے انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے بھاری جانی اور مالی قربانیاں دیں، ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا دیوانہ وار مقابلہ کیا، ہر طرح کے جبر، مصائب اور مشکلات کے باوجود آزاد وطن حاصل کرنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر کے دکھا دیا۔ یہ کتنے دکھ، تکلیف اور افسوس کی بات ہے کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے رہنمائوں، شہداء اور غازیوں کی بھاری قربانیوں اور لازوال جدوجہد کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ آج ہماری نصابی کتب سے تحریک پاکستان، قراردادِ مقاصد کے ساتھ ساتھ آزادی کی اس جدوجہد کے بارے میں مضامین ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ، قائد اعظم ، سر آغا خان، نوابزادہ لیاقت علی خان، محمد علی جوہر، چوہدری رحمت علی، شیر بنگال فضل الحق ، سردار عبدالرب نِشتر ، مولانا ظفر علی خان، بہادر یار جنگ، خواجہ ناظم الدین، شوکت علی، حسین شہید سہروردی، خان عبدالقیوم خان، حمید نظامی، مجید نظامی ، محترمہ فاطمہ جناح، جہاں آراء شاہ نواز، رعنا لیاقت علی خان اور دیگر رہنمائوں کے بارے میں ہمارے نوجوانوں کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں اور قومی رہنمائوں کی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔
 یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم تحریکِ آزادی کے صف اول کے رہنما، صوبہ سرحد کو ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شامل کروانے کی کامیاب جدوجہد کرنے والے دلیر، جرأت مند رہنما، حضرت قائد اعظم کے جانثار اور قابلِ فخر ساتھی خان عبدالقیوم خان کی بے مثال خدمات کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’روزنامہ نوائے وقت‘‘ نے ہمیشہ تحریک پاکستان، قیام پاکستان کے مقاصد ، دو قومی نظریہ اور قومی رہنمائوں، شہدائ، غازیوں اور مجاہدوں کی جدوجہد، قربانیوں اور کارناموں کو اجاگر کیا ہے۔ تحریک پاکستان کے قابلِ قدر رہنما خان عبدالقیوم خان کے بارے میں یہ کالم نہ صرف ان کی شخصیات کے مختلف پہلو اجاگر کرے گا بلکہ اس سے نوجوان نسل کو تحریک پاکستان کے بارے میں بہت سی معلومات بھی ملیں گی۔ خان عبدالقیوم خان ممتاز کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور برطانوی عہد کی ریاست چترال میں 1901ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور اور پھر علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ 
خان عبدالقیوم خان نے لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس سے ڈگری حاصل کی اور پھر ’’بار ایٹ لاء کر کے وکالت اور سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ 33 سال کی عمر میں انڈین نیشنل کانگریس سے اپنی سیاست کا آغاز کرنے والے خان عبدالقیوم خان نے اپنی ذہانت ، قابلیت اور خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے مختصر سی مدت میں کانگریس میں نمایاں مقام حاصل کیا اور 1937ء میں کانگریس کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انہیں ڈپٹی لیڈر کی ذمہ داریاں سونپی گئیں آپ 1945ء کے اوائل تک کانگریس سے وابستہ رہے اور پھر حضرت قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور شمال مغربی صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کو مضبوط اور متحرک کرنے میں لگ گئے۔ یاد رہے کہ اس وقت اس صوبے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مخالف سرخ پوش رہنمائوں کی وجہ سے یہاں کانگریس کا طوطی بولتا تھا اور سیاسی میدان میں عبدالغفار خان اور اُن کے بھائی ڈاکٹر عبدالجبار خان کا ستارہ عروج پر تھا لیکن قائد اعظم کے جانثار ساتھی اور جرأت مند لیڈر خان عبدالقیوم خان متحرک ہونے سے کانگریس کے حواریوں میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ آپ نے اس اہم صوبے کی گلی گلی، گائوں گائوں شہر شہر قائد اعظم کا پیغام پہنچایا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے کو بلند کیا۔
 آپ کی دن رات کی محنت، عزم، حوصلے ، جرأت، اور بہادری کی وجہ سے لوگ جوق در جوق مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہونے لگے جس سے سرخ پوشوں اور کانگریسیوں کو اپنی کشتی ڈوبتی نظر آ رہی تھی اور انہوں نے اس جرأت مند اور بہادر لیڈر کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈے اور مذموم سازشوں کے جال پھیلا دئیے کیونکہ صوبے میں انتخابات کے لیے سرخ پوش، کانگریس اتحاد مسلم لیگ کے خلاف صف آرا تھا۔ آپ نے پیر مانکی شریف کے ساتھ مل کر صوبے بھر میں بھرپور انتخابی مہم چلائی لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے کہ کانگریسی اتحادیوں نے 30 نشستیں جیت کر میدان مار لیا جبکہ مسلم لیگ کو صرف 17 نشستیں ملیں۔ اس طرح کانگریسی رہنما ڈاکٹر عبدالجبار خان المعروف ڈاکٹر خان صاحب اس اہم صوبے کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ یہ سرخ پوش رہنما اور کانگریس کے حامی خان عبدالغفار خان کے بھائی تھے۔ 
مسلم لیگ کی دشمن اس جماعت نے خان عبدالقیوم خان، دیگر لیڈروں اور کارکنوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی اور مسلم لیگ اس صوبے میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور پھر قیام پاکستان کے دن /14 اگست 1947ء کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں کی فضا بھی ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی یہ سب قائد اعظم کے جانثار ساتھی خان عبدالقیوم خان کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف سرخ پوش اور کانگریس کسی اور ہی سازش میں مصروف تھے وہ مسلمان اکثریت کے اس صوبے اور افغانستان کے کچھ حصوں کو ملا کر پختونستان کی آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خان عبدالقیوم خان تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے عوام کو متحد کر کے صوبہ بھر میں اس سازش کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ صوبہ سرحد کے غیور عوام حضرت قائد اعظم کی آواز اور خان عبدالقیوم خان کی شبانہ روز پر لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے اور پھر چشم فلک نے اس اہم صوبے کو مملکت خداداد پاکستان میں شامل ہوتے دیکھا۔ حضرت قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل خان عبدالقیوم خان کو اس صوبے کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا جنہوں نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی مسلم لیگ کے منشور کے عین مطابق صوبے بھر میں عوام کی فلاح و بہبود، ان کے مسائل کو حل کرنے ، ترقیاتی منصوبوں کا جال پھیلا دیا اور مختصر سی مدت میں صوبے کو شاہراہِ ترقی پر ڈال دیا۔ ضرورت اس بات کی ہے حکومت تحریک پاکستان، دو قومی نظریے، قراردادِ مقاصد اور تحریکِ پاکستان کے ہیروز، شہداء ، غازیوں ، مجاہدوں اور رہنمائوں کے کارناموں اور خدمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کیلئے مربوط اور جامع پروگرام تیار کرے انہیں نصابی کتب میں بھرپور جگہ دے اور پرنٹ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر بھی تحریک پاکستان کے رہنمائوں کی خدمات کو اجاگر کرے۔ اس مشن کو ایک قومی خدمت سمجھ کر انجام دے۔ اس میں اب مزید تاخیر کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن