دوستی یا غلامی؟
خالق کائنات نے مخلوق کے لیے اپنی آخری کتاب ہدایت، قرآن حکیم میں مومنوں کو میدان جنگ میں کام آنے والے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے میدان جہاد میں جان مار کر دشمن پر ٹوٹ پڑنے والے ان جنگی گھوڑوں کی قسم کھائی ہے۔ جوہری ہتھیار جدید دور کے وہ آلات حرب ہیں جن تک رسائی اس حکم ربی کے تحت ہر مسلمان ملک پر فرض ہے مگر افسوس کہ دنیا کی کم و بیش ساڑھے پانچ درجن مسلمان مملکتیں اس صلاحیت کے حصول میں شدید کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہیں جس کے سبب وہ اپنی سلامتی اور حفاظت کے لیے غیر مسلموں کی دست نگر ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی واحد مسلمان مملکت ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جوہری صلاحیت کے حصول کی توفیق نصیب ہوئی ہے اور وہ اپنے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت سے بہرہ ور ہے یہی سبب ہے کہ پاکستان آج عالم کفر کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ دنیا میں امن کے ٹھیکیداروں کو عیسائی ممالک، یہود و ہنود، اسرائیل اور بھارت کے جوہری پروگرام دکھائی نہیں دیتے جہاں ہزاروں کی تعداد میں جوہری ہتھیار ذخیرہ کئے گئے ہیں انہیں صرف پاکستان کا جوہری پروگرام پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ نظر آتا ہے، اسے کبھی ’اسلامی بم‘ کا نام دیا جاتا ہے اور کبھی کوئی اور… اس لیے کہ اس بم کے حصول کے بعد پاکستان ایک حد تک دفاعی ضروریات میں خود کفیل ہو گیا ہے…!
عین اس وقت جب کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے 75 برس مکمل ہونے پر تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں، امریکی صدر جوبائیڈن نے گزشتہ دنوں کسی جواز اور موقع محل کے بغیر پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی اور ارشاد فرمایا کہ ’’پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کا جوہری پروگرام بے قاعدہ ہے۔‘‘ قیام پاکستان کے فوری بعد امریکہ نے پاکستان کو اپنی دوستی کے شکنجے میں جکڑ لیا تھا کہنے کو تو یہ دوستی تھی مگر عملاً یہ امریکی غلامی کا طوق تھا جسے پاکستان کے گلے میں پہنا کر اسے دوستی کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی تھی، پاکستان کے ارباب اقتدار کو جب بھی اس کا احساس ہوا اور انہوں نے اس کا اظہار کرنے کی کوشش کی تو انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور اکثر تو جان سے گئے اور جو بچ گئے انہیں کم از کم سزا اقتدار سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے قتل کی تحقیقات اگرچہ ابھی تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکیں تاہم خود امریکہ کی جانب سے مقررہ مدت کے بعد افشا کی گئی سرکاری دستاویزات میںیہ اعتراف موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش امریکہ نے کی تھی ۔ملک کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان امریکہ سے دوستی کے بہت بڑے علمبردار تھے مگر جب
حقیقت حال سے آشنا ہوئے تو ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں تسلیم کیا کہ یہ دوستی نہیں غلامی ہے۔ ایوب خاں کو اس جرم کی سزا اقتدار سے محرومی کی صورت بھگتنا پڑی پھر ذوالفقار علی بھٹو جنرل محمد ضیاء الحق سے لے کر آج عمران خان تک کی صورت میں برسراقتدار رہنے والوں کو دوستی کے نام پر غلامی کا قلاوہ اتارنے کی کوششوں کی سزا دی جاتی رہی ہے، حالانکہ پاکستان کو بار بار امریکہ دوستی یا غلامی کی بھاری قیمت چکانا پڑی مگر امریکہ نے کبھی اس کی قدر نہیں کی جس کی تازہ ترین مثال نائن الیون کے بعد افغانستان پر کی جانے والی امریکہ کی بلاجواز چڑھائی ہے جس میں پاکستانی حکمرانوں نے غلامی کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور امریکہ کی خاطر ہزاروں پاکستانی شہریوں نے جانوں کی قربانی دی جب کہ ملکی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا ۔
1965ء کی جنگ میں ہمارا دفاعی اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دی جب کہ 1971ء کی جنگ میں امریکہ پاکستان کو دو لخت کرنے کی سازش میں باقاعدہ بھارت کے ساتھ شریک تھا تاہم زبانی کلامی ہمیں آٹھویں بحری بیڑے کی آمد کی طفل تسلیاں دی جاتی رہیں… حالانکہ یہ بیڑہ نہ آنا تھا نہ کبھی آیا…!!!
جہاں تک امریکی صدر جوبائیڈن کی تازہ ہرزہ سرائی کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کا ذمہ دار سب سے بڑھ کر امریکہ ہے گزشتہ ایک صدی کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ دنیا میں جتنی جنگیں، امریکہ نے مسلط کیں کوئی دوسرا ملک اس کا مقابلہ تو دور کی بات، اس کے پاسنگ بھی نہیں، پھر دنیا کے امن کے لیے امریکہ کے بعد سب سے بڑا خطرہ اسرائیل اور بھارت ہیں جن کو براہ راست امریکہ کی سرپرستی اور اشیرباد حاصل ہے، اسی طرح جوہری پروگرام سے متعلق غیر ذمہ داری کا مظاہرہ خودامریکہ نے جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا کر کیا۔ دوسری جانب بھارت میں افزودہ یورینیم کی بھاری مقدار میں چوری کی ایک سے زائد وارداتوں کا انکشاف ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے سامنے ہو چکا ہے۔
ایٹمی تابکاری کے اخراج کے جو واقعات بھارت میں ہو چکے ہیں، ویسی کوئی ایک مثال بھی پاکستان سے متعلق پیش نہیں کی جا سکتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا بھر میں جوہری ٹیکنالوجی اور اثاثہ جات کی حفاظت اور قواعد و ضوابط کی پابندی کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارہ آئی اے ای اے کی جانب سے آج تک کبھی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی کہ پاکستان کا جوہری پروگرام عالمی حفاظتی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا یا یہ کہ پاکستان نے اس سلسلے میں کبھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے… ان حقائق کی روشنی میں امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان کو لغو اور بے بنیاد الزام تراشی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے…؟؟؟