لانگ مارچ کی تلوار
عمران خان لانگ مارچ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وفاق کی اتحادی حکومت لانگ مارچ کے خوف میں مبتلا ہے-جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسلام آباد میں گزشتہ دو ہفتوں سے ہزاروں کنٹینرز نے لوگوں کے راستے بند کر رکھے ہیں-اسلام آباد کے شہریوں کو آمدورفت میں سخت مشکلات کا سامنا ہے ہزاروں طلباء سکولوں اور کالجوں میں جانے سے قاصر ہیں۔ اس افسوس ناک صورتحال سے اسلام آباد کے شہری تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا کر سکتے ہیں- بقول شاعر:
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
راہ میں ڈھیر نہ لگ جائیں گریبانوں کے
اتحادی حکومت نے لانگ مارچ کے مسلسل خوف اور دباؤ سے باہر نکلنے کیلئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمران خان سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا عمران خان کو لانگ مارچ سے روکا جائے کیونکہ لانگ مارچ کی کال سے اسلام آباد کا کاروبار مملکت متاثر ہو چکا ہے اور اسلام آباد کے شہری متاثر ہو رہے ہیں- عدلیہ نے وفاقی حکومت کا مؤقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ مفروضوں پر کوئی حکم جاری نہیں کر سکتے حکومت اپنی آئینی اور قانونی ذمے داریاں پوری کرے- افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان مسلسل زوال پذیر ہے ایک وقت تھا کہ فیض احمد فیض نے کہا تھا-
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
آج وفاقی حکومت منت سماجت کر رہی ہے کہ عوام کے مقبول لیڈر کو اسلام آباد آنے سے روکا جائے تاکہ اسلام آباد کا کاروبار معمول کے مطابق چل سکے۔آپ عمران خان کی فلم گورننس اور انکے بیانیے سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت وہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں جو اگر لانگ مارچ کی کال دیں تو انکی کال پر لاکھوں افراد اسلام آباد پہنچ جائینگے جن کو روکنا کسی صورت وفاقی حکومت کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ پولیس کی سکیورٹی میں عوام کے قافلے خیبر پختونخواہ پنجاب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے اسلام آباد کا رخ کریں گے تو ان کو راستے میں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔نوجوانوں کے یہ قافلے جب اسلام آباد میں پہنچ جائینگے تو پھر اسلام آباد پر حکومت اتحادی جماعتوں کی نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی ہوگی۔عمران خان بھی دل سے نہیں چاہتے کہ وہ پاکستان کے نوجوانوں کو لانگ مارچ کی کال دیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب عوام جمع ہو جاتے ہیں تو پھر ان کو کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پھر عوام خود فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے کس نوعیت کی سرگرمیاں کرنی ہیں۔ خدا نخواستہ پاک فوج اور عوام آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان لانگ مارچ کو ملتوی کرتے آرہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اتحادی حکومت ان کو انتخابات کی کوئی تاریخ دے تاکہ انکی بھی فیس سیونگ ہوجائے اور وہ لانگ مارچ کی کال کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیں۔عمران خان نے سیاسی حکمت عملی کے تحت وفاقی حکومت پر لانگ مارچ کی تلوار لٹکا رکھی ہے اور وہ حکومتی نمائندوں کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات بھی کر رہے ہیں ۔انہوں نے پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات بھی کی ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ چونکہ پاکستان کے عوام کے مقبول اپوزیشن لیڈر ہیں لہٰذا وزیراعظم ان کے ساتھ بیٹھ کر اگلے انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کریں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبران آرمی چیف کی تعیناتی اور نگران حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں ان سے با معنی با مقصد مشاورت کی جائے۔ انکے خلاف کیس ختم کیے جائیں۔ باوثوق ذرائع کیمطابق پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کیخلاف محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت اور مذاکرات کرکے سیاسی مسائل حل کریں۔ سیاستدانوں کو اسٹیبلشمنٹ کی اس صاحب رائے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس جماعت کو حکومت بنانے کیلئے مینڈیٹ دیتے ہیں۔ ہر جماعت کیلئے مساوی مواقع ہونے چاہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں ۔میاں نواز شریف سمیت تمام مرکزی لیڈروں کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ عوام کی عدالت میں پیش ہوں اور ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ عدالت نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کریں۔پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے عمران خان کے ساتھ ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرنے کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہے کہ برف پگھلنے جیسی صورتحال جنم لے رہی ہے۔پاکستان معاشی حوالے سے انتہائی تشویش ناک صورتحال کا شکار ہے پاکستان کے چار کروڑ عوام سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں دوسری جانب پاکستان اربوں ڈالر کے قرضوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے ۔ وفاقی حکومت کوشش کر رہی کے قرضے دینے والے ممالک پاکستان کے قرضے معاف کر دیں یا ان کو موخر کر دیا جائے تاکہ پاکستان موجودہ سنگین اور حساس نوعیت کے معاشی بحران سے باہر نکل سکے- عمران خان کے پاس لانگ مارچ کے علاوہ بھی کچھ کارڈ موجود ہیں جن کو استعمال کرکے وہ فوری انتخابات کروا سکتے ہیں مگر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر فوری انتخابات ہو جائیں تو ان کی حکومت بھی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے ۔عمران خان اگر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں توڑ دیں تو فوری انتخابات کو کون روک سکتا ہے۔ اگر صرف ایم کیو ایم کے لوگ ہی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیں اور صدر پاکستان وزیراعظم میاں شہباز شریف سے کہیں کہ وہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں تو ان کیلئے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہو جائیگا ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی اور نفسیاتی جنگ جاری ہے سارے مرکزی سیاستدان مختلف نوعیت کے مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں۔تشویشناک آڈیوز اور ویڈیوز خفیہ ایجنسیوں کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ان حالات میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ لانگ مارچ تو نہیں ہوگا اور نومبر میں اگلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا جو اگلے سال مارچ اپریل میں ہو سکتے ہیں۔