چلتے ہو تو چکوال کو چلئے
سیاحت انسان کا ہر دل عزیز مشغلہ ہے اور ہمارے لئے یہ مشغلہ اس وقت اور اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ جب خالق کائنات خود انسان کو اپنے کلام الہیٰ میںزمین پرگھومنے پھرنے کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ مظاہر فطرت الہیٰ کو قریب سے دیکھنے سے ہی انسان کو اپنے خالق و مالک کی کاریگری اور قدرت کا حقیقی احساس ہوتا ہے۔ ہمارے اس جدید زمانہ میں لوگوں تک نئے سیاحتی مقامات کے تعارف کو ایکسپلور( Explore )کا نام دیا گیا ہے ۔کسی زمانہ میں سیاح اپنے سفر کے تجربات کو قلم بند کر کے ’’سفر نامہ ‘‘کی صورت میں ایکسپلور کیا کرتے تھے اگرچہ آج بھی سفر نامے پڑھے اور لکھے جاتے ہیں لیکن اب ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے اور پڑھنے کی بجائے دیکھا اور سنا جاتا ہے اور اب تحریر ی سفر ناموں کی بجائے ویژیول سفر نامہ ’’ وی لاگ‘‘ نے جگہ لے لی ہے۔دنیا بھر میں سیاحتی مقامات کی سیر کرنے والوں میں ہمیشہ وہ سیاح زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو مصنف ،ادیب یا پھر ویڈیو بلاگر ہوتے ہیںکیونکہ عام سیاح سیر کے بعد اپنی سیر اور سفر کے تجربات زیادہ سے زیادہ اپنے عزیز و اقارب تک شیئر کر تا ہے جبکہ لکھاری اور وی لاگرز اپنی قلم بندی اور فلم بندی سے ان سب کو عوامی سطح تک پہنچاتے ہیں۔ سیاحت کے تجربات کی منتقلی کا یہ عمل دیکھنے پڑھنے اور سننے والوں کو نہ صرف تفریح بلکہ نا واقف علاقوں کی معلومات اور آگاہی بھی دیتے ہیں۔ جب سے وی لاگ ٹرینڈ عام ہوا ہے نت نئے سیاحتی مقامات دریافت کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بے شمار سیاحتی مقامات ہیں جو ابھی بھی عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اس سوچ کے تحت پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک سلمان کی سربراہی میں’’ایکسپلور چکوال ٹورازم‘‘کے نام سے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹرذیشان حنیف نے لاہور اور اسلام آباد کے میڈیا ہاوسز سے تعلق رکھنے والے بعض صحافیوں کے دو روزہ تفریحی ٹور کا اہتمام کیا۔ ضلع چکوال چار تحصیلوں کلر کہار ،چوآ سیدن شاہ، تلہ کنگ اور لاوہ پر مشتمل ہے قومی موٹر ویز کا بلندترین حصہ سالٹ رینج بھی ضلع چکوال میں آتا ہے۔ چکوال کو جھیلوں کا ضلع کہا جاتا ہے جن کی تعداد درجنوں میں ہے میں کلر کہار جھیل کو ہی واحد سیر گاہ سمجھتا تھا ۔لیکن صحافتی وفد کے ساتھ جانے کے بعد مجھے علم ہواکہ ان وادیوں میں کلر کہار سے زیادہ خوبصورت جھیلیں ابھی تک سیاحوں کی منتظر ہیں۔ جہاں ایک طرف سالٹ رینج کے پہاڑی سلسلوں کے قدموں میںکھنڈوعہ جھیل جو ہالی ووڈ کے فلمی مناظر کا تاثر دیتی ہے تو دوسری طرف نقطہ بلند پر ماٹن جھیل دلکشی کی عکاس ہے۔ اسی طرح ڈھوک ٹاہلیاں کی بلندی پر واقع ڈیم نما ڈھوک ٹاہلیاںجھیل اپنا خاص سحر رکھتی ہے اور ان سب میں درآبی ڈیم و جھیل کو اول درجہ دیا جانا چاہئے جو کہ سالٹ رینج کے سبز و پتھریلے پہاڑوں کے لینڈ سکیپ میں سوئٹزرلینڈ کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ ان تمام مذکورہ سیاحتی مقامات پر اپ گریڈیشن اور ملک بھر سے سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کے زیر نگرانی و انتظام پراجیکٹس زیر تکمیل ہیں۔ جو چند ماہ تک مکمل ہو جائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریبا ان تمام مقامات پرپی ٹی ڈی سی کے گیسٹ ہائوس موجود ہیں جو سیاحوں کے لئے انتہائی مناسب نرخوں پر دستیاب ہیں۔ وادی سون سکیسراور انتہائی خوبصورت کھبیکی جھیل بھی ضلع چکوال کا حصہ ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جب سردیوں میں شمالی علاقہ جات برف کی چادر اوڑ ھ لیتے ہیں اور راستے طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے تب چکوال کے تمام سیاحتی مقامات آئیڈیل حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ان کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ مقامات لاہور اور اسلام آباد کے وسط میں ہیں اتنی زیادہ اکٹھی سیر گاہیں دیکھنے کے بعد بے اختیار زبان پر آ جاتا ہے ’’چلتے ہیں تو چکوال کو چلئے‘‘ ۔ڈی سی چکوال ڈاکٹر ذیشان کی بریفنگ کے دوران حیرت ہوئی جب انہوں نے بتایا کہ ہمارے ضلع میں ابھی بھی بے شمار سیر گاہیں اور جھیلیںایسی ہیں جن میں 1% سیاح بھی نہیں آتے اور ان جگہوں کی ایکسپلوریشن بہت ضروری ہے جن میںابدال ،آڑ،سٹون گارڈن ،بنو امیر خاتون،کھائی ڈیم شامل ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اس پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے جبکہ چکوال دنیا بھر میں اڑیال و دیگر وائلڈ لائف اور زیتون کی اعلی پیدوار کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ تحصیل چوآ سیدن شاہ میں موجود کٹاس راج مندر دنیا بھر کے ہندووں کا دوسرا بڑا مقدس ترین مقام ہے۔ جہاںچار ہزار سال پرانے 17 مندر قائم ہیں اور پاکستان سے ہندو مذہبی تہواروں پر باقاعدہ مندر پر حاضری دیتے اور عبادت کرتے ہیں ۔ دورہ کے شرکاء کا کہنا تھا کہ جب سکھ برادری کے لئے کراتار پور کاگردوارہ بنا کر نہ صرف بھارتی سکھوں بلکہ دنیا بھر کے سکھوں کو انکے مقدس مقامات تک رسائی دی گئی ہے وہاں پاکستان میںہندووں کے مخصوص تہواروں کے موقع پربھارتی و دیگر غیر ملکی ہندو زائرین کو محدودو یزہ جاری کر کے سیاحت کے ذریعہ ذرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے توسیاحت ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرسکے گی لیکن اگر جھیلوں کی سر زمین پر سے سیمنٹ اور کریشنگ فیکٹریوں کو کہیں اور شفٹ کر دیا جائے تو چکوال کے فطرتی حسن کو تا دیر بحال رکھا جا سکتا ہے ان فیکٹریوں کی موجودگی نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہی ہے بلکہ پہاڑوں کو نگل کر چٹیل میدان بھی بنا رہی ہے۔ سیمنٹ فیکٹریوں کے باعث کٹاس راج مندر کا قدرتی چشمہ خشک ہو چکا ہے ۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈی سی چکوال اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور محدود بجٹ کے باوجود چکوال کی سیاحت کو فروغ دینے میں ہمہ تن گوش ہیں حالانکہ اس طرح کی سرگرمیاں اور فکر پی ٹی ڈی سی کا فرض اور ذمہ داری ہے مگر ہمارے ہاں متعلقہ سرکاری ادارے سفید ہاتھی ہی ثابت ہوتے ہیں ۔