• news

تاریخی شکست کی وجہ مہنگائی یا عمران خان 


 ایک کہاوت ہے کہ ایک شخص خچر پر سوارجارہا تھا ایک جگہ سے گذرا تو کچھ لوگوں نے اسکا مذاق اڑایا اور کہا کہ بھائی کچھ توخیال کرو کیوں نحیف ونزار خچر پر بیٹھے ہو موٹے آدمی نے پرواہ نہ کی اورآگے چل دیا۔ راستے میں اسے خیال آیاکہ یہ توطلم ہے خچرکی حالت زار پراسے رحم آگیا ا س نے خچرکو کندھوں پر اٹھایا اور چلنے لگاابھی کچھ دیر ہی چلا تھا کہ عقب سے ہنسنے کی آوازیں آئیں۔ کسقد ربیوقوف ہے خچر پر سوار ہونے کی بجائے خچر اس پرسوار ہے کچھ دور جاکر اس نے خچر کونیچے اتارا اور اسکی رسی تھامے پیدل چلنے لگا، ابھی کچھ دیر ہی چلاتھا کہ کسی نے کہا کہ یار عجیب بیوقوف ہو خچر کے ہوتے ہوئے پیدل چل رہے ہو ۔وہ شخص مخمصے میں پھنس گیا کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کرے ۔ بہت سوچ اور بچار کے بعد اس نے خچر کو کنویں میں پھینک دیا۔ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان ہے یا مہنگائی۔ دیکھا جائے تودونوں مسئلے ہی سوہان روح بنے ہوئے ہیں اور دونوں مسئلوں کو کھوہ کھاتے کرنے کے لئے حکومت کے پاس فی الحال کوئی حکمت عملی نہیں ہے ۔ضمنی الیکشن میں عمران خان کی چھ سیٹوں پر کامیابی کے بعد جہاں عمران کا رویہ مزید جارحانہ ہوا ہے اور وہ دھرنے کی کال کا عندیہ دے رہے ہیں وہاں حکومت نے اس تاریخی شکست کی وجہ بجلی کے بلوں میں اضافہ قراردیا ہے۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ جسکی بیس ہزار تنخواہ ہے اس کوبائیس ہزارکے بل آرہے ہیں۔ جس نے غریب کی چیخیں نکلوادی ہیں اور انکو سکھ اور چین سے سونا بھی نصیب نہیں ہے ۔
 اتحادیوں کی شکست نے ایک طرف تو یہ ثابت کیا ہے کہ عمران خان عوام میں مقبول ہیں۔ دوسری طرف سوال یہ ہے کہ حکومت کے پا س آگے چل کر کیا آپشنز ہیں کہ وہ اپنی ساکھ بچاسکے۔ اسوقت موجودہ صورت حال یہ ہے کہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ان حالات میں صدر امریکہ کابیان بھی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ معیشت دانوں کاخیال ہے کہ پاکستان د یوالیہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں قومی سا لمیت کے لئے ایسے فیصلے درکار ہیں جن سے ملک مضبوط ہو ۔ ضمنی الیکشنز میں عمران خان کے چھکا اور جیت نے اگلے الیکشنز کابھی فیصلہ کردیا ہے ۔ تیرہ جماعتوں کی شکست کی وجہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ عوام کی ناراضی بھی ہے۔ عوام کو غربت اور مہنگائی نے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ۔ جہاں ان کے لئے امن کاسانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ 
 ضمنی الیکشنز کے نتائج نے بہت سے سوالوں کو اٹھایا ہے ۔کیا لاڈلے کے بیانیے کو تقویت ملی؟ ۔ کیا موجودہ صورتحال میں حکومت اتحادیوں کو متحد رکھ پائے گی ؟کیا ان الیکشنز کا عام الیکشنز پر اثر پڑے گا ؟اور کیا لانگ مارچ کے زریعے عمران خان جلد الیکشنز کرواسکیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئیگا لیکن اتنا ضرور ہے کہ عوام ہر حالت میں کمر توڑ مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد عوام یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ اب سیاسی استحکام کی بیل منڈھے چڑھے گی لیکن صورتحال اسکے برعکس رہی ۔ آج ہمارے حکمرانوں نے قرضو ں کا اتنا بوجھ چڑھادیا ہے کہ ہم کاسہ ٗگدائی اٹھا ئے دربدر دستک دے رہے ہیں ۔جسکا فطری نتیجہ ہے کہ قرض دینے والے ہمیں ڈکٹیٹ کرتے ہیں اور ہتک آمیز حد تک ہمارے معاملات میں مدا خلت کرتے ہیں ۔مغربی سامراج سے آزاد ہونے کے بعد ہماری پہلی ترجیح مالی اقتصادی ااور اخلاقی استحکام ہونا چاہیے تھا لیکن ہماری آغاز سے ہی اس طرف توجہ نہیں رہی ۔بقول شاعر
 اپنی نبیڑ تینوں ہوراں نال کیہ
 گھٹڑی سنبھال تینوں چوراں نال کیہ
 ضمنی الیکشنز کو سیاسدان نوشتۂ تقدیر سمجھ کے ایک مربوط سیاسی نظام پر متفق ہوں۔ معاشرہ اخوت اور مساوات کی صورت میں اہرام کی شکل میں بلند ہو، معیشت نیچے سے اوپر کی طرف پروان چڑھے لیکن ہماراعمل اوپر سے نیچے کی طرف لڑھکتا ہے جس سے نہ سوچ میںتوازن رہتا ہے نہ سیاست اور معیشت کا پہیہ درست سمت گھوتا ہے۔ ان نامساعد حالات میں ان فیصلوں کی ضرورت ہے جو ملک کو استحکام کی طرف لے کر جائیں ۔ 

ای پیپر-دی نیشن