پاکستان کا فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا اقتصادی ترقی کی بنیاد بنے گا
جی سیون کے نام سے منسوب دنیا کے سات ترقی یافتہ ممالک امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ جرمنی‘ جاپان اور اٹلی کے تشکیل کردہ ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے بالآخر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے پیرس میں دو روزہ اجلاس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان ایف اے ٹی ایف کے سنگاپور سے تعلق رکھنے والے صدر ٹی راجا کمار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پاکستان 2018ء سے گرے لسٹ میں تھا۔ پاکستان کی حکومتوں اور افواج پاکستان نے مشترکہ کاوشوں کے بعد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے جاری کردہ 34 نکات پر عملدرآمد مکمل کرلیا جس کی ایف اے ٹی ایف کی ٹیم نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر نے واضح کیا کہ اسکے باوجود کہ پاکستانی قیادت 34 نکات پر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہے‘ مانیٹرنگ جاری رہے گی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کے فیصلے پر قوم کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں یہ ہماری عظیم قربانیوں کا اعتراف ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا سہرا ان تمام لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے انتھک محنت کی۔ امریکی حکومت نے بھی پاکستان کے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو سراہا اور کہا کہ امریکہ ایف اے ٹی ایف کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے انسداد کے اہداف پورے کرنے میں پاکستان کی پیش رفت اور کوششوں کو تسلیم کرتا ہے جس کے نتیجے میں اسے گرے لسٹ سے نکالا گیا۔
1989ء میں وجود میں آنیوالے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے بنیادی مقاصد میں دہشت گردی کیلئے ہونیوالی فنانسنگ کو روکنا‘ منی لانڈرنگ پر قابو پانا اور ٹیکس کی معافی سے دنیا بھر کے ممالک کو روکنا شامل ہے۔ ابتداء میں اسکے ارکان کی تعداد سات تھی جنہیں بانی ارکان کہا جا سکتا ہے بعد میں چین اور بھارت سمیت بہت سے دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہو گئے اور اس وقت اس ادارے کے رکن ممالک کی تعداد 39 تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو دہشت گردی کی لپیٹ میں تو آیا لیکن اسکے محرکات ریاستِ پاکستان کے پیدا کردہ نہیں بلکہ بیرونی طاقتوں کا شاخسانہ تھے۔ امریکہ میں ہونیوالے نائن الیون کے واقعہ کے نتیجے میں جب امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر وحشیانہ بمباری کرکے اسے تورابورا بنانے کے عمل کا آغاز کیا تو ردعمل میں دہشت گردی نے جنم لیا۔ پاکستان نے امریکہ کی افغانستان کی جنگ میں اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا جو کردار ادا کیا اسکے جواب میں اسے دہشت گردی کا تحفہ ملا۔ امریکہ نے برسوں تک افغانستان کو اپنی مشق ستم کانشانہ بنائے رکھا۔ طالبان کی ملاعمر کی قیادت یا سربراہی میں قائم حکومت کے خاتمے کے بعد یہاں طالبان مخالف قبائلی گروہوں اور جنگجوئوں کی سرپرستی کرتے ہوئے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں۔ لیکن امریکہ نواز حکومتوں کے قائم ہونے کے باوجود افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہی۔ طالبان بظاہر پسپا ہو کر کابل سے دور دھکیل دیئے گئے لیکن انکی امریکہ مخالف اور کٹھ پتلی حکومتوں کیخلاف مسلح جدوجہد جاری رہی۔ پاکستان نے امریکی حکومت کو طالبان کیخلاف جاری جنگ میں جس طرح سپورٹ مہیا کی اور جس کی بنیاد پر امریکہ کو پاوں جمانے کے مواقع میسر آئے ۔ انکی وجہ سے امریکہ مخالف جنگجو گروپ پاکستان کے بھی مخالف ہو گئے۔ انہوں نے موقع تلاش کرکے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کے واقعات کا آغاز کر دیا۔ امریکی حمایت اور سپورٹ کی سزا پاکستان اور اہل پاکستان کو بھگتنا پڑی۔ دہشت گردی کیخلاف بند باندھنے کیلئے سول حکومتوں اور افواج پاکستان نے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اپریشن ضرب عضب اور اپریشن ردالفساد کے نام سے ملک میں مختلف علاقوں میں وسیع پیمانے پر اپریشن کئے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور ان کا مکمل صفایا کرنے کیلئے بھرپور وار کئے۔ ان اپریشنوں کے نتیجے میں پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستانی قوم نے جان و مال کی جو بیش بہا قربانیاں دیں ان کی مثال نہیں ملتی۔
اگرچہ پاک فوج نے ملک کے اندر دہشت گردوں کی گردن مروڑ کے رکھ دی ہے لیکن وہ اب بھی سرحد پار سے آکر وقتاً فوقتاً دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ انہیں بھارتی حکومت اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی لاجسٹک سپورٹ اور سرپرستی حاصل ہے۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات کی وجہ سے باہر کی دنیا میں پاکستان کا امیج ایک دہشت گرد ملک کے طور پر بنایا جانے لگا جس کے پیچھے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا زہریلا مگر منظم پراپیگنڈا تھا۔ اسی کے ایماء پر 2018ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کوگرے گسٹ میں شامل کردیا تھا۔ اس دوران پاکستان کی برسر اقتدار حکومتوں اور افواج پاکستان کی قیادت نے جامع حکمت عملی تیار کی اور جن چارجز اور الزامات کی بناء پر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا‘ ان کو دور کرنے کیلئے بھرپور اقدامات شروع کر دیئے۔ سول حکومتوں اور پاک فوج کے عزم صمیم کی بدولت پاکستان ان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے جن 34 نکات کی نشاندہی کی تھی‘ ان پر فوکس کرتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے کہ آج ایف اے ٹی ایف کی ٹیم نے بھی اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ بلاشبہ یہ کامیابی حکومت پاکستان‘ مسلح افواج اور دیگر متعلقہ اداروں کی مشترکہ کاوشوں کا ثمر ہے۔ تاہم اس پر محض مبارکباد دینے یا خوشی کے تازیانے بجانے کی بجائے ان کوششوں کو تسلسل سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے ہمیں گرے لسٹ سے خارج تو ضرور کردیا ہے لیکن ہمیں کھلی چھٹی نہیں دی بلکہ مانیٹرنگ کا عمل جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کیلئے غیرملکی فنڈنگ کے حصول کا راستہ کھل گیا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان میں معیشت کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی ۔گویااب بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاملے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہی ورنہ اس سے پہلے بین الاقوامی سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتی تھیں۔ پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا اسکی اقتصادی و معاشی ترقی کی بنیاد بنے گا اور پاکستان ایک بار پھر دنیا کے باوقار، ذمہ دار اور ترقی کی راہ پر گامزن ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیگا۔ تاہم اس منزل کے حصول کے لیے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر مسلسل عمل کرنا ہو گا۔