• news
  • image

سید کام کرتا تھا

17؍ اکتوبر 1917ئکے دن دہلی میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس کی تمام عمر سخت جدوجہد میں گزری اور جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ میں دوسرے تمام مسلم رہنماؤں سے کہیں زیادہ حصہ لیا اور جب27؍ مارچ 1898ء میں اس کا وقتِ آخر آیا تو اکثر نے صدق دلی سے اور دوسروں نے طوعاً و کرہاً تسلیم کیا کہ ایک بہت بڑا شخص دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ اکبر الہ آبادی سرسید احمد خاں کے نظریات سے بہت کچھ اختلاف رکھتے تھے۔ وہ عمر میں ان سے اٹھائیس سال چھوٹے تھے اور ان کی وفات کے بعد تقریباً تئیس سال زندہ رہے اور انھوں نے بیسویں صدی کے ربعِ اوّل میں ہندوستان کی سیاست کی ان تبدیلیوں کو دیکھا جن سے سرسید محروم رہے لیکن اس عرصے میں ان دونوں بزرگوں کی سوچ میں اختلافات کم ہو چکے تھے اسی لیے اکبر نے سرسید کی وفات پر یہ قطعہ کہا تھا:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی, میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر
خُدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
اگر محمود غزنوی کو ہندوستان کا پہلا مسلمان فاتح قرار دیا جائے اور تقریباً 1000ء سے اسلامی دور کا آغاز مانا جائے تو 1903ئمیں لارڈ لیک کے دہلی پر قبضے تک تقریباً نو سو سال بن جاتے ہیں۔ اس عرصے میں مسلمانوں کی حکومت رہی۔ اس کے باوجود ہمیشہ مسلمانوں کی اقلیت رہی جس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں زبردستی تبدیلِ مذہب کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مسلمان افواج کے ساتھ ساتھ بہت سے تاجر اور صوفیا ء ہندوستان کے ساحلوں تک بس گئے۔ نو سو سال کے اس طویل عرصے میں عمومی طور پر ہندو اور مسلمان باہم گزر بسر کرتے رہے مگر بہت بڑی تعداد کبھی گُھل مل کر نہ رہی اور ایک قوم نہ بن سکی۔ ان کے عقائد، رسوم و رواج، اور طرزِ معاشرت بہت حد تک الگ تھلگ ہی رہے اور ان کا باہمی تمدنی فرق کبھی مٹ نہ سکا۔ چھوت چھات بدستور قائم رہی اور مسلمان عام ہندوؤں کے نزدیک ملیچھ ہی رہے۔ ہندو اپنے برتن اور کھانا پینا الگ رکھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں مسلمانوں کے جسموں سے اَن دیکھے جراثیم نکل کر ان کے کھانوں، برتنوں اور کپڑوں کو ناپاک کر دیتے تھے۔ پاکستان میں جو لوگ تقسیم کے بعد پیدا ہوئے ہیں وہ اس صورتِ حال کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بزرگ مبالغہ آرائی کرتے ہیں ورنہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ بس ایک مثال پیش کر کے آگے بڑھ جاتا ہوں۔
تقسیم سے پہلے جب لوگ کسی پارک میں گھوم پھر کر واپس آتے تھے اور پیاس بجھانے کے لیے پارک سے باہر واقع کنوئیں کا رخ کرتے تھے تو ہندو کسی برتن میں پانی پی لیتے تھے اور مسلمانوں کے لیے ایک کھوکھلا بانس ہوتا تھا جس میں ایک طرف سے پانی انڈیلا جاتا تھا اور دوسری طرف مسلمان دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی پیتا تھا۔ اسے اوک کہتے تھے۔ اس بات کو شاعرانہ انداز میں غالب نے یوں بیان کیا ہے:
پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
پورے ہندوستان کے ہر شہر اور قصبے میں ہندو اور مسلم محلے الگ الگ تھے۔ مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ ہم فاتح قوم ہیں اور ہندو یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر قبضہ کر کے ہمیں غلام بنا لیا ہے۔ ان سے نجات پانے کا وقت آ گیا ہے اور انگریزی حکومت نے ہمیں ایک سنہری موقع مہیا کیا ہے جس سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ دونوں قوموں کی اجتماعی نفسیات ہے۔ اسے تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہندو سمجھتے تھے کہ ایک دن انگریز چلے جائیں گے۔ جمہوریت کے مروجہ طریقِ کار کے مطابق اسمبلیوں میں ہماری اکثریت ہو گی۔ ہم اپنی مرضی کے مطابق آئین بنائیں گے اور اپنی مرضی سے اس میں حسبِ ضرورت ترمیم کر سکیں گے۔

اس صورتِ حال کو سب سے پہلے جس مسلمان رہنما نے سمجھا وہ سرسید احمد خاں تھے۔ کئی سال وہ بھی یہ سمجھتے رہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو مل جل کر پیار محبت سے رہنا چاہیے لیکن جب بعض انگریز حاکموں کی سرپرستی سے انھوں نے اردو رسم الخط کی بجائے ہندی (دیوناگری) رسم الخط کو دفتروں اور خاص طور پر عدالتوں میں ترویج کی تحریک چلائی تو سرسید چونک اٹھے اور انھیں اندازہ ہو گیا کہ اس کا اصل مقصد عدالتوں میں مسلمان اہل کاروں کو نکال کر ان کی جگہ ہندوؤں کو لگوانا ہے۔ عدالتوں کی زبان اردو تھی جس میں قانونی اصلاحات بیشتر فارسی میں تھیں اور چھوٹے اہل کار زیادہ تر مسلمان تھے۔ خط کی تبدیلی سے وہ اور زیادہ بے روزگار اور مفلوک الحال ہو جاتے۔ اس تحریک کے بعد سرسید کو اندازہ ہو گیا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ سرسید کے علاوہ سارے بڑے مسلمان رہنما مثلاً اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال، (قائدِ اعظم) محمد علی جناح، حسرت موہانی وغیرہ متحدہ قومیت کے حامی رہنے کے بعد اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات سے دو قومی نظریے کے قائل ہوئے __ مگر اس کا آغاز سرسید اور ان کے علی گڑھ تحریک کے ساتھیوں نے کیا تھا۔
مسلمانان ہند کی تاریخ میں 1857ء کا زمانہ مسلمانوں کے لیے بدترین اور تاریک ترین تھا۔ میرٹھ چھاؤنی سے ہندوستانی فوجیوں کی بغاوت سے شروع ہونے والا یہ واقعہ جلد ہی ملک گیر بن گیا۔ اس کی ناکامی کے کئی اسباب تھے مگر سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ یہ تحریک کسی لیڈرشپ اور تنظیم سے محروم تھی۔ ایک وقت آیا جب انگریز تقریباً بے دخل ہو چکے تھے مگر باغیوں میں طرح طرح کے مفاد پرست شامل ہو گئے اور مقامی لوگوں ہی کو بے دریغ لوٹنا مارنا شروع کر دیا چنانچہ لوگوں کی ہمدردیاں منقسم ہو گئیں۔ دہلی کے باہر ایک ٹیلے پر چند انگریز محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ان کے پاس خوراک اور پانی اتنا کم رہ گیا تھا کہ باغی اگر اندرونِ دہلی سے نکل کر ان پر حملہ کر دیتے تو ایک ہی دن میں ان کا کام تمام ہو جاتا مگر باغیوں کے اندرونی اختلافات اور لوٹ مار کی طرف لگے رہنے سے تاخیر ہوئی۔ انگریزوں کو پنجاب سے بالعموم اور سکھ فوج سے بالخصوص مدد مل گئی اور وہ دوبارہ دہلی پر قابض ہو گئے اور پھر چند مہینوں کے اندر اندر باقی مقامات پر بھی انگریزوں کا دوبارہ غلبہ ہو گیا۔ اس کے بعد ایک ڈیڑھ سال تک مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات اتنی دردناک ہیں کہ انھیں دہرانا بھی دل و دماغ کو ماؤف کرنے کے لیے کافی ہے۔ سرسید نے بہت اختصار سے اس کے نتائج کو یوں بیان کیا تھا: 
’’جن لوگوں پر بدبختی کے دن آتے ہیں ان کا بُرا کام بھی آنکھوں میں نہیں کھٹکتا ان میں سے ہزاروں نے کیسے ہی برے کام کیے ہوں مگر ان کی برائی پر کسی کو دھیان نہیں ہوتا یہ بدبختی کا زمانہ وہ ہے جو 1857ء و1858ء میں ہندوستان کے مسلمانوں پر گزرا کوئی آفت ایسی نہیں ہے جو اس زمانے میں نہ ہوئی ہو اور یہ نہ کہا گیا ہو کہ مسلمانوں نے کی گو وہ رام دین اور ماتا دین نے ہی کی ہو۔ کوئی بلا آسمان سے نہیں چلی جس نے زمین پر پہنچنے سے پہلے مسلمانوں کا گھر نہ ڈھونڈا ہو‘‘ (حیات جاوید)

epaper

ای پیپر-دی نیشن