اتوار، 26 ربیع الاول 1444ھ، 23اکتوبر 2022ء
احتجاج مایوس کن تھا، اب ملک خوشحال ہوگا۔وزراء
اس پر زیادہ خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں۔ جب انکا رانجھا بھی گیا تھا تب کیا ہوا۔ یہ فیصلہ کرنا وزراء کا نہیں عوام کا کام ہے کہ وہ اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہیں یانہیں۔ ویسے بھی خود عمران خان نے ساری صورتحال دیکھنے کے بعد کہ کسی کے جانے پر ہمالیہ نہیں روتا، کارکنوں کو کہا کہ وہ احتجاج نہ کریں لانگ مارچ کی تیاری پر توجہ دیں۔ یوں ان کا بھرم بھی رہ گیا۔دن بھرے تھم گئے اور اب ہرطرف شانتی ہی شانتی ہوگی۔ شاید اسی پرحکومتی وزیرکہہ رہے ہیں کہ احتجاج مایوس کن تھا۔ اب خوشحالی کا دورآئے گا۔ یہ خوشحالی بھی ایسی معشوقہ ہے جس کے ہزارہا عاشق ہیں مگر کیا مجال ہے جو یہ کسی پر فدا ہو۔ سب اس کے پیچھے دوڑرہے ہیں مگر یہ ہے کہ کسی کے ہاتھ نہیں آرہی ۔ کسی کے ساتھ نہیں آرہی۔ حکمران کوئی بھی ہو صرف خوشحالی کے خواب دکھا کر نعرہ لگاکر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں خوشحالی آج بھی لوگوں کی پہنچ سے بہت دور کسی گوشہ تنہائی میں کھڑی ہماری حماقتوں پر مسکرارہی ہے۔ یہ تواچھا ہے عمران خان نے از خود احتجاج معطل کردیا ورنہ خیبرپی کے اور پنجاب میں سڑکیں بلاک ہونے سے ساری تکلیف عوام کو اٹھا نا پڑرہی تھی۔ یہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومتیں ہیں وہ بھلا مظاہرین کو کیسے روکتیں الٹاروکنے پہ بدنام ہوتیں۔ایسے بھی اس دوران پولیس آرام سے اپنے دوسرے کام کاج دیکھتی رہی اور مظاہرین کی ٹولیاں مرکزی اور رابطہ سڑکیں بند کرکے نعرے لگاتے رہے اور مسافر رلتے رہے۔ اگر مخالفین کی حکومت ہوتی تو شاید اتنی آسانی سے احتجاج کی اجازت نہ ہوتی۔اسلام آباد میں ہی دیکھ لیں۔۔۔
٭٭٭٭
ٹی20 ورلڈکپ پاکستان اور بھارت آج مدمقابل ہونگے
میلبورن میں آج کرکٹ کی عالمی جنگ میں غضب کا رن پڑنے والا ہے۔ دو روایتی حریف پاکستان اور بھارت ورلڈکپ ٹی ٹونٹی میں اپنے پہلے میچ میں مد مقابل ہوں گے جوڑ برابر کا ہے۔ گزشتہ مسلسل کامیابیوں کے بعد پاکستانی ٹیم کو جو نفسیاتی برتری حاصل ہے‘ خدا کے فضل کے ساتھ اگر ہماری ٹیم نے یہ گوہر نایاب ہاتھ سے نہ گنوایا‘ کھیل کو کھیل سمجھ کر کھیلا تو پھر ہمیں کسی بات کا ڈر نہیں۔ اگر نفسیاتی خوف میں مبتلا ہو کر ماضی کی طرح ہاتھ پائوںچھوڑ دیئے گئے تو پھر پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اس لئے ہمارے کھلاڑیوں کو ہر خوف سے بے نیاز ہوکر کھیلنا ہوگا۔ ویسے بھی اس وقت جو ٹیم ہمارے سامنے ہے‘ وہ نوجوان خوف اورہار جیت سے بے نیاز لڑنے مرنے کو تیار شاہینوںکی ہے۔ پلٹ کر جھپٹنا ان کی سرشت میں شامل ہے تو پھر ڈر کاہے کا ۔ کسی ایک کا نام نہیں لیتے‘ ہمارے سارے کھلاڑی اس وقت فارم میں ہیں۔ سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہیں۔ ان سے جو ٹکرائے گا انشاء اللہ پاش پاش ہو جائے گا۔
پوری قوم کی دعائیںان کے ساتھ ہیں۔ خاص طورپر مظلوم کشمیریوں کی جن کیلئے پاکستان اور بھارت کا میچ زندگی اور موت کا کھیل ہوتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ ان کی سانسیں بھی باقی پاکستانیوں کی طرح رکتی اور چلتی ہیں۔ ان کی ہر خوشی‘ ہرغم پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ امید ہے آج کا یہ میچ بھی انکی مسرت اور شادمانی کا باعث بنے گا اور پوری وادی پاکستان زندہ باد کے نعروںاور آتش بازی کے دھماکوں سے گونج اٹھے گی۔
٭٭٭٭
دوا ساز کمپنیوں نے پیناڈول کی تیاری بند کردی
یہ ہے ہمارے دوا ساز اداروں کی عوام دوستی۔ یہ ہیں ہمارے چارہ گر جنہیں مہنگائی میں پستے ہوئے عوام سے زیادہ اپنے منافع کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ کیادواکی قیمت انسانی زندگی سے اہم ہوتی ہے۔ عام دوا کو جو غریبوں کیلئے امرت دھارا تھی‘ اب آب حیات بنا کر غائب کیجا چکی ہے۔ ڈھونڈے سے یہ بازار میں دستیاب نہیں ہوتی۔ درد بخار کی یہ عام دوا جان بوجھ کر مہنگی فروخت کرنے کی یہ سازش تھی جو اب کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ حکومت تو ویسے ہی ان مافیاز کے سامنے بے بس ہے‘ وہ بہت کچھ کرنا چاہے توکر سکتی ہے‘ بقول فیض:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
تو جناب جب چارہ گر ہی گریز کرنے لگیں تو بیمار کو دوا کون دے گا وہ بھلا چنگا کیسے ہوگا۔ اب میڈیسن مافیا اور حکومت کے کارندے نوراکشتی کریں گے۔مذاکرات کا ناٹک ہوگا۔ اس عرصہ میں یہ دوا مکمل طورپر مارکیٹ سے غائب ہو جائے گی تو عوام میں ہاہا کار مچے گی۔ تب بڑی مشکل سے رنگ بازی کرتے ہوئے حکومت دوا کی قیمت میں 100 نہ سہی‘ 80 روپے اضافہ کی اجازت دیدے گی۔ یوں 12روپے والا گولیوں کا پیک 30میں ملے گا۔ سیرپ بھی 80 کی بجائے 150 تک ملنے لگے گا۔ حکومت خوشی کے ڈھول بجائے گی اور میڈیسن مافیا اپنی من مانی پر ناچتا پھرے گا۔ اس سارے تسلسل میں جیب کٹے گی عوام کی اور صحت تباہ ہوگی غریبوں کی۔ جو نہ کچھ کر سکتے ہیں نہ کچھ کر سکیں گے سوائے رونے دھونے کے۔
٭٭٭٭
جمعہ کا دن نوازشریف اور عمران خان ،دونوں پر بھاری
سیاسی میدان میں تو ایک زرداری سب پہ بھاری کانعرہ سننے کو ملتاہے۔ مگر حقیقت کی دنیا میں جمعہ حکمرانوں پر بھاری ہوتاہے والی بات بھی اب درست ہوتی نظر آرہی ہے۔ ویسے بھی عوام الناس جمعۃالمبارک کو گرم دن قراردیتے ہیں۔ اسے عام لفظوں میں بھاری دن بھی کہا جاتاہے۔ یہ اسکے تقدس کی بدولت کہا جاتاہے کیونکہ قیامت کے بارے میں کہا جاتاہے وہ جمعہ کو برپا ہوگی۔ اسی طرح دیگر کئی اہم مذہبی واقعات میں جمعۃ المبارک کا ذکر آتاہے۔ یہ دعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی اہم دن ہے۔ اب رہی سیاست کی بات تو اگر تاریخ کو کھنگالا جائے تو کئی اہم سخت واقعات بھی اسی روز واقع ہوئے۔ فی الحال ہمارے سامنے چند برسوں کی سیاسی روداد موجود ہے۔ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ بڑی تمکنت سے وزیراعظم بنے انہیں جمعۃ المبارک کے دن نااہلی کا سندیسہ ملا صرف انہیں ہی نہیں ان کی، بیٹی اور داماد کو بھی سیاست سے بیدخل ہونا پڑا ۔ اب ایساہی عمران خان کے ساتھ ہورہاہے اور وہ بھی جمعہ کے دن ۔ بے شک سب دن اللہ کے ہی ہیںمگر جمعۃتو ہمارے حکمرانوں پر بھاری ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے کرتوت ہی ایسے ہیں کہ خدائی کوڑا ان پر تازیانہ عبرت بن کر اسی دن بر ستاہے۔ اب دیکھنا ہے یہ دونوں اس سے کتنا سبق سیکھتے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب باقی دن بھی کسی نہ کسی پر بھاری پڑنے لگیں۔ ویسے بھی بھٹو کی پھانسی،ایوب خان کا استعفیٰ اور جنرل ضیاء کی موت بھی تو عام ایام میں ہوئی تھی۔
٭٭٭٭