شکریہ آرمی چیف شکریہ!!!!!
وزیراعظم میاں شہبازشریف نے پاکستان کے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے پر کہا ہے کہ "اللہ کا شکر ہے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نجات ملی۔افواج پاکستان، ڈی جی ایم او سمیت دیگر تمام ٹیم کو مبارک باد دیتا ہوں۔ آرمی چیف کو اس کامیابی میں کلیدی کردار پر سراہتاہوں اور مبارک باد دیتا ہوں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور وقار کی بحالی قوم کو مبارک ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ ہماری قربانیوں کا اعتراف ہے۔ پاکستان کے مو¿قف کو تسلیم کرنے پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں شامل ممالک کے مشکور ہیں۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو، تمام متعلقہ حکام اور وزارتوں کو مبارک باد۔" یقینی طور پر یہ پاکستان کے لیے خوشی کا وقت ہے۔ فیٹف گرے لسٹ میں جانے سے اور اس سے بھی زیادہ مشکل حالات کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا لیکن متعلقہ اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان کی خصوصی کاوشوں، توجہ، لگن، دن رات محنت اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بلاامتیاز کارروائیوں کی بدولت پاکستان فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کی موجودگی میں بھی میاں شہباز شریف نے افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا بطور خاص شکریہ ادا کیوں کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس معاملے میں تمام اہم کام فوج نے کیے اور آرمی چیف نے پاکستان کو اس مصیبت سے نکالنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ گوکہ اس دوران سیاسی قیادت اور وزارتوں نے بھی اپنا کام کیا لیکن فوج کا کردار سب سے نمایاں اور مختلف تھا۔ جس وقت سیاست دان قوم کا قیمتی وقت ٹیلیویژن چینلز کے پروگراموں میں بے مقصد گفتگو کر رہے ہوتے ہیں عین اسی وقت فوجی اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جتنا وقت سیاست دان ٹیلیویژن چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا کو دیتے ہیں اگر اس کا نصف بھی وہ اپنے کام پر صرف کریں تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں۔ چونکہ سیاست دانوں کے نزدیک سیاست سب سے اہم ہوتی ہے ریاست کو سیاست کرنے والے وہ اہمیت نہیں دیتے جس کی ریاست کو ضرورت ہوتی ہے جن کے لیے ریاست سب سے اہم ہوتی ہے وہ ضرور سب سے پہلے ریاست کو ترجیح دیتے ہیں اور فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے میں بھی ان لوگوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا جن کے لیے ریاست سب سے اہم ہوتی ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ اس ادارے کی سربراہی کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بطور خاص ان کے کردار کو سراہا ہے۔ کاش ہمارے سیاستدان بیانات اور الزامات کے بجائے ملک و قوم کو درپیش مسائل پر توجہ دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے مسائل حل نہ ہوں لیکن بدقسمتی ہے کہ آج بھی سیاست کرنے والوں کے لیے سیاست ہی اہمیت رکھتی ہے اگر ریاست کو یہ اہمیت حاصل ہوتی تو سیلاب سے متاثرہ ملک میں یوں جلسے جلوس اور مظاہرے نہ ہو رہے ہوتے اور نہ ہی روزانہ کئی گھنٹے بیانات اور الزامات پر ضائع کرتے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے گذشتہ چند ماہ کے دوران دفاعی اداروں کے حوالے سے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ ناقابلِ قبول اور حقیقت سے دور ہے۔ وہ دفاعی اداروں کے خلاف منظم منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فوج تمام تر الزامات اور تنقید کے باوجود اپنے کام میں مصروف ہے۔ یہ صورت حال انتہائی افسوسناک ہے کہ وہ ادارہ جو پاکستان کے دفاع کا ضامن ہے اور ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے سامنے آتا ہے خان صاحب اپنے ووٹرز کو ان کے خلاف ابھارنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں بھی فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے حوالے سے بہت کام ہوا لیکن خان صاحب تو فرماتے ہیں کہ فیصلہ کوئی اور کرتا تھا، ان کی حکومت کمزور تھی دوبارہ ایسی حکومت قبول نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب ہے فیٹف پر بھی فیصلہ اور کام کسی اور نے کیا تھا۔ کاش سیاست دانوں کی سوچ میں پختگی آئے اور وہ اپنی سیاست سے پہلے ملک و قوم کے مفاد بارے سوچیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اگر آپ سیاسی عمل کا حصہ ہیں تو پارلیمنٹ میں آنا جانا لگا رہے گا لیکن یہ تو کوئی طریقہ نہیں کہ اگر میں نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ اب پاکستان گرے لسٹ سے نکل رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان دنیا سے جڑ رہا ہے اور پاکستان پر دنیا کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اگر ہم سیاسی انتشار کا شکار رہتے ہیں تو اس کا نقصان صرف پاکستان کو ہو گا۔ پاکستان کا امن تباہ کرنے کے لیے دشمن ہر وقت تاک میں رہتا ہے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر سکتا ہے۔ بالخصوص دہشت گرد عناصر متحرک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ ایسے عناصر کا قلع قمع کرنے پر توجہ رکھنی چاہیے۔ اس کے لیے صوبائی حکومتوں کو سیاسی دنگل ست نکل کر اپنے کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے اور انہیں بھرپور سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم لکیر پیٹنے کے بجائے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچ سکیں۔
آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے فیٹف شرائط پر عملدرآمد کیلئے جی ایچ کیو میں خصوصی سیل قائم کیا اور میجر جنرل کی سربراہی میں سپیشل سیل نے وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان روابط کا بہترین نظام قائم کیا۔ سپیشل سیل نے منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ اور بھتہ خوری، اغوابرائے تاوان،ٹارگٹ کلنگ پر مو¿ثر لائحہ عمل سے قابو پاتے ہوئے ثابت کیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ پاکستان نے منی لانڈرنگ کے آٹھ سو سے زائد کیسز کی گزشتہ تیرہ مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کرتے ہوئے اٹھاون ارب کے اثاثے ضبط کیے۔ چھبیس ہزار چھ سو تیس بین الاقوامی درخواستوں پر کارروائی کی۔ ایف بی آر نے سترہ سو سے زائد نامزد غیر مالیاتی کاروبار اور پیشوں کی نگرانی کی اور پینتیس کروڑ روپے کے جرمانے عائد کرنے کے ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو تعمیل کے دائرے میں شامل کیا۔ ایس ای سی پی نے قانونی تعمیل میں دو ارب روپے سے زائد کے جرمانے عائد کیے۔ اس سارے کام کی نگرانی اور سربراہی جس نے کی ہے وہی مبارکباد کا اصل مستحق بھی ہے۔ کاش سول ادارے اور انہیں چلانے والے اس پیشہ وارانہ انداز کو اپناتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کریں۔ سیاست دانوں کو اپنی مراعات اور کاروبار سے فرصت ملے تو ان کی توجہ اصل کاموں پر ہو گی۔
اب موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرے، ملک میں سیاسی استحکام کے لیے سیاسی جماعتیں اور ادارے اپنا کردار ادا کریں، مسائل سب کے سامنے ہیں کوئی کام جی ایچ کیو کے بغیر کرنا بھی سیکھ جائیں۔ ہر وقت جنہیں تنقید کا نشانہ بناتے اور اپنی ناکامیوں کا ملبہ عمران خان کی طرح ان پر ڈالتے رہتے ہیں اس فضول کام سے نکل کر اصل کام پر توجہ دیں۔ اس وقت سے بچیں جب ہر کام جی ایچ کیو سے ہونے لگے۔ اب بھی وقت ہے خود کو حکمرانی کا اہل ثابت کریں۔ لڑائی جھگڑوں سے نکلیں، قوم کا پیسہ اور وقت ضائع مت کریں۔