ایف اے ٹی ایف: اہم ترین کامیابی
پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے دو روزہ اجلاس کے بعد تنظیم کے صدر کی جانب سے باضابطہ اعلان کیاگیا ہے کہ پاکستان کو گرے سے وائٹ لسٹ میں منتقل کیاجارہاہے، یہ یقینی طور پر ایک بہت بڑی کامیابی اور خوشخبری ہے کیونکہ گزشتہ چار سال سے زیادہ عرصہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے قائم اس اہم تنظیم کی گرے لسٹ میں تھا، جس کی بناء پر ہمیں بہت سی معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ تنظیم کے صدر کے مطابق پاکستان نے دیئے گئے34نکات پر عملدرآمدکرلیاہے جس بناء پر اجلاس میں پاکستان کو وائٹ لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کیاگیاہے، ایف اے ٹی ایف نے مختلف ممالک کو تین طرح کی کیٹیگریز میں رکھاہوتاہے جو بلیک، گرے اور وائٹ کہلاتی ہیں، پاکستان کو جون2018ء میں گرے لسٹ میں شامل کیاگیا تھاگزشتہ چار سال سے زیادہ عرصہ میں پاکستان کی حکومت اور تمام متعلقہ اداروں نے بھرپور محنت کی اورایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیئے گئے چونتیس نکات پر عملدرآمدکویقینی بنایا جس کے بعد اب یہ فیصلہ کیاگیاہے۔ایف اے ٹی ایف نے اپنے جولائی کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا اصولی فیصلہ توکرلیاتھا مگر اسے زمینی حقائق کا جائزہ لینے سے مشروط کردیاتھا۔ ستمبر میں ایف اے ٹی ایف کی ایک ٹیم نے پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا اور اس دوران مختلف محکموں اور حکام سے تفصیلی ملاقاتیں کیں جس کے بعد اپنی مفصل رپورٹ ایف اے ٹی ایف کے اعلیٰ حکام کو بھجوائی۔ تنظیم کے دو روزہ اجلاس میں اس رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اسے تسلی بخش قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیاگیاکہ پاکستان نے چونکہ بڑی محنت کے بعد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اٹھائے گئے چونتیس نکات پر عملدرآمدمکمل کرلیاہے لہٰذا اب اسے گرے سے وائٹ لسٹ میں منتقل کیاجاتاہے، تنظیم کے صدر راجہ کمار نے کہاکہ پاکستان میں اب منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف موثر کام ہورہاہے اور ٹیم نے بھی اسی بات کی تصدیق کی ہے کہ نہ صرف بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں بلکہ حکومت اور تمام متعلقہ ادارے اسی بات پر پرعزم ہیں کہ معاشرے میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف Zero Toleranceکی پالیسی ہونی چاہیے۔
ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ کے خلاف دنیا میں سب سے موثر اور بااختیار تنظیم ہے جس کے ورکنگ گروپ میں206اراکین ہوتے ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف مالیاتی اور انتظامی اداروں سے ہوتاہے جن میں ورلڈبنک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ اور انٹرپول وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان پر مختلف حوالوں سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے الزامات لگتے رہے ہیںاور ایسا کرنے میں ہندوستان ہمیشہ پیش پیش رہاہے تاکہ دنیا کو پاکستان کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلاکرکے ہمارے خلاف معاشی پابندیاں لگوائی جائیں۔ گزشتہ چار سال سے زیادہ عرصے کے دوران پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے اٹھائے گئے ستائیس نکات جنہیں بعد میں بڑھاکر چونتیس کردیاگیا کو ایڈریس کرنے کیلئے بہت کام کیا۔ اس سلسلے میں وزارت دفاع، خزانہ، داخلہ اور خارجہ نے بہت زیادہ محنت کی، ان نکات پر عملدرآمدکویقینی بنانے کی بنیادی ذمہ داری پاک فوج کے ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کو سونپی گئی اور ڈی جی ایم او کو فوکل پرسن بنایاگیا۔ ہمارے قومی اداروں کا کردار سب سے اہم اور قابل ستائش رہاہے۔یہ یقیناً ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام تھا اور اس میں وزارت خزانہ نے بھی بہت محنت کی، چونکہ بہت سے معاملات میں اصلاحات کوقانونی شکل دینے کیلئے پارلیمنٹ سے قانون سازی ضروری تھی جوکہ ملک میںموجودہ سیاسی تقسیم اور انتشار کے باعث ایک ناممکن ساکام لگتا تھا۔اس سلسلے میں قومی سلامتی کے اداروں کی محنت اور کوشش سے حزب اختلاف نے بھرپور تعاون کیا اور اپنی سیاست کو پس پشت ڈال کر قانون سازی میں تعاون کیا جس وجہ سے بہت سے قوانین بنانا اورکچھ میں ترامیم کرنا ناممکن ہوسکا۔ مذہبی جماعتوں کا تعاون بھی قابل ستائش رہاہے، اس سے ایک بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر اخلاص اور نیک نیتی ہوتو کوئی کام بھی ناممکن نہیں۔ یہ صرف حکومت یاکسی ایک ادارے کی کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی بحیثیت ریاست کامیابی ہے جس پر تمام متعلقہ ادارے اور حکام مبارکبادکے مستحق ہیں۔اس سلسلے میں پاک فوج کا کردار بالخصوص بہت اہم اورفیصلہ کن رہاہے۔
بے شک یہ ہماری ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے جس کے مثبت اثرات بہت جلد نظرآنا شروع ہوجائیں گے۔ امید ہے کہ اب بہت سے عالمی مالیاتی ادارے اور تنظیمیں بھی پاکستان کے ساتھ مالی معاملات زیادہ سنجیدہ اور اطمینان سے طے کرسکیں گی۔ ایف اے ٹی ایف کے اعلامیہ کے مطابق ہمیں اسی طرح کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ مانیٹرنگ بہرحال جاری رہے گی۔ کوئی بھی حکومت ہو اسے چاہیے کہ حزب اختلاف سے مل کر ملک میں باہمی رواداری اور تعاون کا ماحول پیدا کرے۔
٭…٭…٭