جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ہم فوج سے بہت محبت کرتے ہیں اورخاص کر فوجی جوانوں سے عقیدت ہے۔جب ہوش سنبھالا تو یہی دیکھا کہ گاوں کے ہر دوسرے گھر میں کوئی ریٹائر یا حاضر سروس فوجی جوان موجود ہے ۔یہ بھی دیکھنے کا مشاہدہ ہوا کہ فوجی جو بات کرتے ہیں اس پہ پہرہ دیتے ہیں ۔حیا والے عزت کرنے والے اور کمزوروںکا احساس کرنے والے خاص بندے ہوتے ہیں ۔اب سے چند دن پہلے ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ایک ساتھ دو خوشخبریاں سنائی ہیں پہلی یہ کہ وہ اپنی نوکری میں مزید اضافہ نہیں چاہتے ،آپ اگلے چند ہفتوں بعد ریٹائر ہوجائیں گے اور دوسری یہ کہ اب سے فوج سیاست میں کردار ادا نہیں کرے گی ۔وزرات دفاع کے ماتحت مسلح فوج ایسا محکمہ ہے جس کا پاکستانی سیاست میں شروع دن سے بہت تگڑا کردار رہا ہے ۔فوج سیاست سے کیسے دور رہے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کے محکمے میں شامل ہونے والا ہر فرد باصلاحیت،باشعور اور ملک کے لیے جاں تک قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ ایسے میں جو خاص آفیسرز اپنی محنت،قابلیت اورپیشہ وارانہ تربیت کے بعد اعلی ترین عہدوں پر پہنچتے ہیں ان کی کسی بھی صلاحیت کے بارے شک کرنا گناہ جیسا ہے ۔ماضی کو دیکھیں تو جتنے بھی وزراء اعظم یا صدور نے اپنی مرضی کے آرمی چیف تعینات کروائے ہیں کچھ ہی وقت بعد ان دو ہستیوں کی آپس میں راہیں جدا ہونے لگیں۔اس لیے اب وقت ہے کہ ہمارے سیاست دان بھی کچھ دانشمندی یعنی سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں اور اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کی بجائے سینیر موسٹ آفسر کو اس عہدے کے لیے ذمہ داریاں ادا کرنے کا ایک سادہ سا قانون بنا لیں ۔جو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد خود بخود نئے چیف کے لیے جگہ خالی کردے۔
ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل ہے ۔ سیاست کا اصل مطلب عوام کے لیے بہتری مقصود ہوتی ہے ۔جہاں جہاں انسانی معاشرے وجود میں آئے وہاں کے باشعور لوگوں نے اپنے عوام کے لیے مسائل کم کرنے اور مستقبل کی بہتری کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا عمل شروع کردیا ۔سنتے ہیں کہ پرانے زمانے میں سیاست کے میداں میں آنے والے اپنا نام ، مقام یا اقتدار کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کی بہتری کے لیے عملی کوششیں کیا کرتے تھے۔اس مقصد کے پیش نظر وہ لوگ اکثر اپنی جیب سے ہی بہت کچھ خرچ کردیا کرتے۔ وقت بدلااقدار بدلیں، کردار بدلے اور پھر سیاست کے نام پرہمارے سامنے ایسے چہرے آنے لگے کہ جن کا مقصد پیسہ، پاور اور تعلقات رہ گیا ۔ویسے تو پاکستان کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح اور آپ کے ساتھیوں کی سیاسی بصیرت سے ہی ممکن ہوا تھا لیکن پاکستان بننے کے کچھ ہی وقت بعد سے سیاست دان ہر دور میں سخت مشکلات کا شکار رہے ہیں جس کو جتنی عوامی حمایت حاصل ہوئی وہ اتنی ہی بڑی سزا کا حق دار ٹھہرا۔ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کا قتل،مادر ِ ملت کی اچانک موت،ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکایا جانا،جونیجو جیسے شریف سمجھے جانے وزیر اعظم کو زبردستی اقتدار سے دور کرنا،محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے آئی جے آئی کا قیام،ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف کی جبری ملک بدری،بے نظیر بھٹو کا قتل اور پھر جمہوری وزرا اعظم کو وقت سے پہلے اقتدار سے دور کیے جانے کا عمل آج بھی جاری ہے ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ساری سیاسی جماعتیں متحد ہیں ان کا ایک ساتھ چھ قومی اسمبلی کے حلقوں سے الیکشن جیت جانا اور پھر اس کے چند دن بعد ہی انہیں نا اہل قرار دیا جانا اس سب کے پیچھے کسی نہ کسی کی سیاست تو ضرور ہے ۔ہمارے سیاست دانوں کی بات کریں تو ان میں ایک بات نمایاں نظر آتی ہے کہ یہ اقتدار میں آنے کے بعداپنے لیے اپنوں کے لیے اور اپنے محسنوں، یاروں،پیاروں کے لیے جائز ناجائز ذرائع سے بنا کوئی ثبوت چھوڑے پیسہ جمع کرتے ہیں پھر اس دولت کو مختلف طریقوں سے دوسرے ملکوں میں منتقل کرتے ہیں ۔اب وقت ہے کہ ہمارے سیاست دان راہنما بننے کا عمل شروع کریں اور یہ بیان دیں کہ اب سے ہم ملک سے کسی بھی طرح کوئی روپیہ پیسہ باہر ملکوں منتقل نہیں کریں گے۔ سیاست ہونی چاہیے لیکن حکومتیں تبدیل کروانے کے لیے نہیں بلکہ ریاست مقصد ہونا چاہیے۔ کیونکہ بقول حضرت اقبال سیاست کے بغیر تو چنگیزی ہی رہ جاتی ہے ۔ دنیا میں نام و مقام بنانے کے لیے ہمارے سیاست دانوں کو دوسرے ملکوں کے سیاست دانوں کی زندگیوں بارے بھی جاننے کی کوشش کرنا چاہیے۔صرف اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کی بجائے قوم کے بچوں کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اولادیں اور دولت واپس لانے کا اعلان کرنا چاہیے۔ چلیں مل کے دل سے ایک نعرہ لگاتے ہیں۔
پاک فوج زندہ باد،پاکستان پائندہ باد