ملتان میں انسانی نعشوں کی توہین
وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر طارق زمان گجر کے نشتر ہسپتال ملتان کے دورے کے دوران ایک شخص نے انہیں کہا اگر آپ نیک کام کرنا ہی چاہتے ہیں تو سرد خانے کی طرف چلیں۔وہ کہتے ہیں جب میں نے سرد خانہ کھولنے کے لیے کہا تو ہسپتال کے لوگ سرد خانہ نہیں کھول رہے تھے ۔جب میں نے کہا کہ اگر آپ سرد خانے کا تالا نہیں کھولتے تو میں ابھی آپ کے خلاف ایف آئی آرکٹواتا ہوں ۔جب ہسپتال کی چھت کھلوائی گئی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کے سامنے کٹی پھٹی، ننگے بدن انسانی نعشیں کھلے آسمان کے نیچے بکھری پڑی تھی جن کو گدھ اور کیڑے مکوڑے نوچ رہے تھے ۔ طارق زمان گجر کے مطابق انہوں اپنی پچاس سالہ زندگی میں پہلی بار ایسا خوفناک منظر دیکھاہے۔ہیڈ آف اناٹومی ڈیپارٹمنٹ نشتر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مریم اشرف کی وضاحت کے مطابق ان لاشوں کے گلنے سٹرنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد جسم سے ہڈیاں الگ کر لی جاتی ہیں جن کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاتا ہے اور باقی انسانی نعشوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔اس لیے نعشوں کی بے حرمتی کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ یہ تمام چیزیں وزارت داخلہ اور صحت کے محکمے کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتی ہیں۔ ہمارے پاس ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے جو کہ متعلقہ اداروں کے ساتھ شیئر کردیا ہے۔جن افراد کا تعلق طب کے شعبے سے ہے ان کے لیے یہ بات سمجھنا آسان ہوگی اور ان کے لیے دوسروں کو سمجھانا بھی آسان ہو گاکہ تعلیمی مقاصد کے لیے انسانی نعشیں کیسے استعمال ہوتی ہیں ۔اسی حوالے سے شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عباس نقوی نے کہا کسی ٹیچنگ ہسپتال میں، جہاں میڈیکل کی تعلیم بھی دی جاتی ہے وہاں عام طور پر دو طرح کے مردہ خانے ہوتے ہیں جن میں سے ایک اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا ہے اور ایک فارینزک ڈیپارٹمنٹ کا ۔ جہاں پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے ۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ پولیس جب کسی ایسی نعش کو پوسٹ مارٹم کے لیے لاتی ہے جس کی شناخت نہیں ہو پاتی تو پوسٹ مارٹم کے بعد امانتا یہ نعشیں ان مردہ خانوں میں رکھ لی جاتی ہیں ۔اگر پولیس میت کے لواحقین کو تلاش کر لیتی ہے تو نعش ان کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ مگر ایسی نعشیں جن کی شناخت نہیں ہو پاتی ،قانونی طور پر دو ہفتے تک ان نعشوں کی شناخت کا انتظار کیا جاتا ہے، اس مدت کے بعد ان نعشوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔عمومی طورپر ایسی ناقابل شناخت نعشوں کو چار ہفتے تک رکھا جاتا ہے جس کے دوران نعش کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیمیائی طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے اور کولڈ سٹوریج ہی میں رکھا جاتا ہے۔وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ ہم نعشوں کو تحقیقی مقاصد کے لیے کھلی چھت پر رکھنے سے اتفاق نہیں کرتے ۔انہوں نے کہا سائنسی طریقے سے نعش کو چیر پھاڑ کرکے طلبہ کو انسانی اعضا سے متعلق پریکٹیکل کروائے جاتے ہیں ۔اس کے بعد لیبارٹری ہی میں محلول لگا کر ڈھانچے کو تکنیک کے ذریعے نکالا جاتا ہے اور ان نعشوں کو ہڈیوں کے حصول کے لیے چھت پر نہیں پھینکا جاتا ۔اس پر پاکستان اسلامک کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ انسانی نعشوں کی ایسی تذلیل اور توہین شرعی طور پر مناسب ہے ، نہ اخلاقی طور اور نہ ہی کسی مسلمان کے یہ شایان شان ہے۔اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ انسانی نعشوں کی تکریم کی بھی تلقین کی ہے۔نشتر ہسپتال میں پیش آنے والا واقعہ اسلام کی خوبصورت اور روشن تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے سینکڑوں ن انسانی نعشیں کاٹھ کباڑ کی طرح بے گورو کفن کھلی چھت پر پھینک رکھی تھی ، جنہیں چیلیں کھا رہی تھیں ،کوے ، چرند پرند اور حشرات الارض نوچ رہے تھے ۔اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں انسانی نعشوں کی ایسی توہین اور تذلِیل بے حد المناک اور نا قابل برداشت ہے ۔کیا نشتر ہسپتال کے ڈاکٹروں اور انتظامیہ کے سینوں میں دل نہیں پتھر ہیں ۔شاید وہ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے بھی ایک دن مرنا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کے بناپر وزیراعلی پنجاب کچھ ڈاکٹروں اور عملے کے کچھ افراد کو معطل کردیاہے ،لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر بھیانک جرم کی سز ا صرف معطلی کیوں ہے؟۔ انہیں قرار واقعی سزا دینا بہت ضروری ہے۔وگرنہ ایسے واقعات کسی نہ کسی جگہ پر رونما ہوتے رہیں گے ۔