الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اثرات
توشہ خانہ کیبنٹ سیکرٹری کے تحت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان کے سربراہان اور سینئر افسران کو غیر ممالک سے ملنے والے تحائف رکھے جاتے ہیں۔ توشہ خانہ کے سلسلے میں چونکہ پارلیمنٹ نے کوئی ٹھوس قانون سازی نہیں کی اس لیے ماضی کے حکمران توشہ خانہ سے من مانی قیمتوں پر غیر ملکی قیمتی تحائف حاصل کرتے رہے ہیں۔ غیر ملکی سربراہان کی جانب سے پاکستان کے سربراہان کو جو تحفے دینے جاتے ہیں وہ کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ ریاست کے لیے ہوتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے جب غیر ملکی سربراہوں کو تحفے دیے جاتے ہیں تو ان کی قیمت قومی خزانے سے کی جاتی ہے جس کے مالک عوام ہوتے ہیں۔ جو تحفے غیر ملکی سربراہوں کی جانب سے دیے جاتے ہیں وہ بھی عوام کی ملکیت ہوتے ہیں۔
ریاست مدینہ کے دور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو امیر نامزد کرکے زکوۃ و عشر اور صدقہ جمع کرنے کے لیے دوسرے شہر میں روانہ کیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے مال کے دو حصے کیے اور کہا کہ ایک حصہ زکوۃ کا ہے جو ریاست مدینہ کے لیے دیا گیا ہے جبکہ ایک حصہ اسے تحفے کے طور پر ملا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ جب تمھیں امیر نامزد نہیں کیا گیا تھا تو اس وقت تمھیں کوئی تحفہ کیوں نہیں ملا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے مال کو بیت المال میں جمع کرادیا۔
ریاست مدینہ کے علمبردار کو توشہ خانہ کے تحفوں کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے انھوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ توشہ خانے کے تحائف ریاست کی امانت ہوتے ہیں اور کوئی سربراہ ان کو ذاتی استعمال کے لیے حاصل نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے عوام کے محبوب لیڈر عمران خان کا یہ فرض تھا کہ وزیراعظم بننے کے بعد توشہ خانہ کے سلسلے میں میں ٹھوس قانون سازی کرتے اور یہ فیصلہ کرتے کہ یہ تحفے صرف نیلامِ عام سے ہی حاصل کیے جا سکیں گے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ عمران خان نے خوشگوار روایت قائم کرنے کی بجائے نہ صرف قیمتی تحائف وصول کیے بلکہ ان کو اوپن مارکیٹ میں فروخت بھی کر ڈالا۔ ان کے اس حیران کن غیرمتوقع اقدام سے ان کے کروڑوں فالورز کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔
جب ایک صحافی علی ابرار نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیل مانگی تو وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے یہ تفصیل دینے سے انکار کر دیا۔ مختلف حیلے بہانوں سے توشہ خانہ کے کیس کو زیر التوا رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی۔
چیف الیکشن کمشنر پاکستان سکندر سلطان کا نام وزیراعظم عمران خان نے خود تجویز کیا تھا اور ویڈیو ریکارڈ کے مطابق انھوں نے کئی بار ان کی تعریف بھی کی۔ بعد میں وہ بوجوہ چیف الیکشن کمشنر سے ناراض ہوگئے اور ان پر شدید نوعیت کی توہین آمیز تنقید کرتے رہے۔
اس شدید تنقید کا مقصد یہ تھا کہ اپنی جماعت کے کارکنوں اور حامیوں کو یہ باور کرایا جائے کہ چیف الیکشن کمشنر توشہ خانے کے سلسلے میں جو فیصلہ دے گا وہ سیاسی انتقام ہو گا اور انصاف پر مبنی نہیں ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر نے جو متفقہ تفصیلی فیصلہ سنایا اس کے مطابق عمران خان کو تحفہ جات کے سلسلے میں حقائق چھپانے جان بوجھ کر غلط گوشوارے جمع کرانے درست بینک ریکارڈ پیش نہ کرنے کے الزام میں ڈی سیٹ کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق جب کوئی رکن اسمبلی نا اہل قرار پائے تو وہ پارٹی کی سربراہی بھی نہیں کر سکتا۔ جیسے جب میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا تو وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نہیں رہے تھے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس متفقہ فیصلے سے عمران خان اور تحریک انصاف کو سیاسی اور اخلاقی دھچکا کا لگا ہے۔ عوام ان سے ہرگز یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ وہ غیر ملکی تحائف کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کر دیں گے اور پھر ان کی تفصیلات بھی گوشواروں میں ظاہر نہیں کریں گے۔
پاکستان میں یہ روایت بڑی پختہ ہوچکی ہے کہ جب بھی کسی سیاستدان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے ہے تو اس پر مخصوص ایجنڈے کے تحت بحث شروع کر دی جاتی ہے۔
تحریک انصاف کے وکلاء نے بڑی عجلت سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا جبکہ ابھی الیکشن کمیشن نے اپنا تفصیلی فیصلہ بھی جاری نہیں کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس پٹیشن پر اعتراض لگا کر پٹیشن واپس کر دی اور عمران خان کے وکلاء سے کہا گیا کہ وہ یہ اعتراض دور کرکے دوبارہ پٹیشن دائر کریں۔
پاکستان کے کئی نامور اور تجربہ کار وکلاء نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر یہ رائے دی ہے کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی رکن پارلیمنٹ کو از خود نااہل قرار دیدے۔ جب تک کوئی عدالت یا ٹریبونل کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف کرپشن یا بد عنوانی کا مجرم قرار نہ دے، الیکشن کمیشن اسے نا اہل قرار نہیں دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کی قومی اسمبلی کی اسمبلی کی نشست خالی قرار دی جا سکتی ہے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق عمران خان کی موجودہ اسمبلی کی نشست ختم کر دی ہے البتہ وہ ضمنی انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ نااہلی کا پہلا مرحلہ ہے۔
اس مرحلے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی اور آخری فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔
بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ عدالتوں کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی سیاستدان کو نااہل قرار دے اور یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ انتخابات کے دوران فیصلہ کریں کہ وہ کس سیاستدان کو قیادت کا اہل اور کس کو نا اہل سمجھتے ہیں۔
یہ رائے پاکستان کے نظام عدل و انصاف کے منافی ہے۔ جب ہم رول آف لاء کی بات کرتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو پھر یہ اختیار عدالتوں کے پاس ہی رہنا چاہیے کہ وہ فیصلہ کریں کہ کس سیاستدان نے آئین اور قوانین کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ آئینی اور قانونی فیصلے عوام نہیں کر سکتے۔ اسی طرح جس شخص کے خلاف کوئی الزام لگایا جائے اسے اپنی صفائی دینے کی بجائے دوسرے ملزموں کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھوں نے جو تحائف بیچے ان میں سے تیس لاکھ روپے بنی گالہ کی سڑک کے تعمیر کے لیے سی ڈی اے کو دیے تھے اگر وہ باقی رقم شوکت خانم میموریل ہسپتال میں جمع کرا دیتے تو ان کے کارکنوں کو عوامی سطح پر ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔