• news
  • image

نئے گینگز پولیس کے لیے چیلنج بن گئے

ویسے تو پورے ملک میں ہی جرائم پیشہ افراد سرگرم ہیں لیکن خصوصی طور پر لاہور اور کراچی سٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئے وارداتوں سے بہت متاثر ہیں۔ ان دونوں بڑے شہروں کے جرائم کا جائزہ لیا جائے تو ہوشربا انکشافات ہوں گے۔ لگتا ہے جیسے ان دونوں کیپیٹلز میں ڈاکو راج ہے۔ بے شمار کوششوں کے باوجود پولیس اور پولیس کی دیگر فورسز بظاہر بڑھتے ہوئے ان جرائم کو قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ جیل سے رہا ہونے والے اسیران اور بڑے شہروں میں کرمنلز کے جنم لینے والے نئے گینگز پولیس اور اُس کی ذیلی فورسز کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔پولیس کا کرائم چارٹ اور اُس کے اعدادو شمار غمازی کرتے ہیں کہ اب جرم کرنے والوں کو جرم سے روکنا مشکل ہے کیونکہ اُن کی دیدہ دلیری حد سے بڑھ چکی ہے۔ انہیں کسی کا خوف اور ڈر نہیں۔ اہم شاہراہوں پر سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت اگرچہ سینکڑوں کی تعداد میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں تاکہ شہر کو محفوظ بنایا جا سکے۔ مگر پھر بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ اے ٹی ایم اور بینکوں سے کیش لے کر نکلنے والے بھی اب خود کو اتنا غیر محفوظ سمجھتے ہیں کہ کیش لے کر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ جہاں مزاحمت ہو جائے یہ جرائم پیشہ قتل تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
مقامی پولیس کے علاوہ سی آئی اے اور لاہور میں ایلیٹ فورس بھی اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ہیں کہ تیز رفتاری کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کی جا سکے۔ مگر حکومت اور انتظامیہ کے سب جتن جرائم کی بیخ کنی کے لیے اب تک ناکام نظر آئے ہیں۔لاہور میں سٹریٹ کرائم کے سدباب کے لیے ترکی کی طرز پر ’’ڈولفن فورس‘‘ متعارف کرائی گئی ۔ جس کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس سپیشل فورس کے ذریعے ممکنہ حد تک جرائم پر قابو پایا جاسکے۔ جس میں سٹریٹ کرائم بھی شامل تھا۔جبکہ سات سو اہل کاروں کے لیے 500سی سی کی جدید ترین ہیوی بائیکس منگوائی گئیں۔ انہیں جو یونیفارم فراہم کی گئی وہ بھی پولیس کی وردی سے الگ تھی۔ مقصد یہی تھا کہ ڈولفن کی اپنی الگ حیثیت اورجداگانہ پہچان ہو۔ ڈولفن اہلکاروں کو جدید اسلحہ اور وائرلیس کا جدید نظام بھی دیا گیا۔ تاکہ وہ نئی آن بان اور شان سے شہر کی سڑکوں پر گشت کر سکیں۔ گشت کے دوران انہیں جو بھی مشکوک گاڑی یا موٹر بائیک نظر آئے اُس کو روک کر سوار افراد کو چیک کر سکیں۔ ڈولفن کی بدولت اب تک بہت سے کرمنلز پولیس کے ہتھے چڑھے ہیں۔ ڈولفن نے کئی وارداتوں کو آن دی سپاٹ وقوع پذیر ہونے سے روکا ہے۔ تاہم کروڑوں روپے کے اضافی اخراجات کے باوجود ہم اب تک مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لاہور پولیس کی یہ سپیشل اور مثالی فورس بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ اور عوام الناس کے لیے کوئی اچھی مثال نہیں بن سکی۔حالانکہ ڈولفن کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ مقامی ریلوے اسٹیشن اور لاری اڈوں سے شہر میں داخل ہونے والے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کر سکے۔ نیز تجارتی مراکز کی طرف مال و اسباب کی خریداری کے لیے جانے والے تاجر بھی ناصرف بحفاظت اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکیں بلکہ خیریت کے ساتھ اُن کی واپسی بھی ممکن ہو۔ لیکن حکومت اور اعلیٰ پولیس حکام کا یہ خواب ہی رہا۔
 پولیس سے حاصل ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ جرم کی ان وارداتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ روزانہ کی بنیاد پر سٹریٹ کرائم اور ڈکیتی کے بیسیوں مقدمات مقامی تھانوں میں درج ہوتے ہیں جن کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ جو ملزمان ٹریس ہوتے ہیں اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔جرائم کے بڑھتے ہوئے تناسب پر جب ایک سابق پولیس افسر سے بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’معاشرتی ناہمواریوں اور انصاف کے حصول میں درپیش مشکلات نے ہمیں آج یہ دن دکھائے ہیں۔ جہاں بے روزگاری اور شدید ترین معاشی بدحالی ہو، وہاں جرم کثرت سے ہوں گے ۔‘‘ سٹریٹ کرائم کے حوالے سے ہمارا میڈیا جو رپورٹس پیش کر رہا ہے وہ بہت ہی چونکا دینے والی ہیں۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج جب کسی کرائم کے حوالے سے ٹی وی سکرین پر آن ایئر ہوتی ہیں تو کروڑوں ناظرین کی نظر سے گزرتی ہیں۔ بیشتر فوٹیج میں تو جرم کرنے والوں کی شکلیں بھی واضح نظر آ رہی ہوتی ہیں لیکن اکثر یہی خبر آتی ہے کہ پولیس فوٹیج میں ملزمان کی واضح نشاندہی کے باوجود اُن کا سراغ نہیں لگا سکی۔ حیران کن امر ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ملزمان کا جلد سراغ کیوں نہیں لگایا جاتا۔ کیا اس ڈیوٹی پر مامور لوگ کام نہیں کرنا چاہتے یا اُن کی کوئی اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ اس کا پتہ لگانا بے حد ضروری ہے۔
اگرچہ ملک کے ہر ضلع اور ڈویژنل سطح پر سی آئی اے موجود ہے جس کی ذمہ داری ہی ڈکیتی، چوری اور راہزنی جیسے سنگین جرائم کرنے والے جرائم پیشہ کو پکڑنا ہے جس کے لیے سی آئی اے کے پاس جدید ٹیکنالوجی کے علاوہ مخبروں کا بھی ایک مربوط نیٹ ورک موجود ہوتا ہے لیکن پھر بھی اُس تندہی سے کام نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے۔۔جب جرائم بڑھتے ہیں تو عوام الناس ہی نہیں حکومت بھی سکھ کا سانس نہیں لیتی۔ چنانچہ جرائم کے تدارک کے لیے حکومت اور پولیس کچھ نہ کچھ عملی اقدامات کرتی رہتی ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میںکرمنلز بھی پولیس اور اُس کی ذیلی فورسز کی تمام تدابیر کے باوجود جرم کی نئی نئی راہیں تلاش کر لیتے ہیں۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ذمہ داران کو دیکھنا ہو گا کہ ہم بڑے اضلاع کے لئے مزید ایسا کیا کر سکتے ہیں کہ وہ محفوظ ترین شہر بن جائیں اور جرائم پیشہ افراد کو جرائم کا موقع نہ مل سکے۔
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن