• news
  • image

نئی نسل  کے مجرم

بلا امتیاز ملک و قوم اور مذہب نئی نسل جس بے راہ روی اور جرائم کی خوفناک کارروائیوں میں دھنس گئی ہے یہ لمحہ فکریہ صرف والدین کے لیے ہے آج میں کچھ بچوں کے جرائم کے بارے میں لکھوں گی ۔ پہلے دو خبریں غیر ملکی بچوں کے بارے میں ہیں کیونکہ ان غیر ملکی بچوں کے جرا ئم کے جرا ثیم ہمارے بچوں میں سوشل میڈیا نے منتقل کیے ہیں :
۱۔  جرمنی کا ایک سولہ سالہ نوجوان اپنے ہمسا ئے کی ایک چودہ سالہ لڑکی کو ورغلا کر گھر لایا وہ گھر میں اکیلا تھا ۔ جب لڑکی پر جنسی تشدد کرنا چاہا تو وہ نا راض ہو کر باتھ روم میں گھس گئی لڑکے نے اسے وہا ں دبوچ لیا اور اسکی ناراضی (ایسے معالات میں وہا ں عام طو ر پرنا راضی نہیں ہوتی ) سے ناراض ہو کر اسے باتھ روم میں پڑی واشنگ مشین میں گھسیڑ دیا اور مشین چلا دی وہ لڑ کی مائع ہو کر نالی میں بہہ گئی ۔ ۲۔  انگلینڈ میں ایک پیچیدہ کیس نے ساری پولیس کوپریشان اور بے بس کر دیا ایک سکول کی دس لڑ کیاں ایک ایک دن کے وقفے کے بعد قتل ہوئیں اور لاشیں سکول سے کافی فاصلے پر جنگل میں پائی گئیں لیکن طریقہ واردات ایک تھا یعنی گلہ دبا کر مارا گیا ۔پولیس نے سب حربے استعمال کیے لیکن کوئی بھی سراغ نہیں مل رہا تھا ۔آخر کار مجرم پکڑا گیا ایک لڑکی جس کا گلہ دبا کر اسے مردہ سمجھ کرجلدی میں واپس سکول پہنچ گیاتھا وہ گر تی پڑتی زندہ سلامت واپس سکول پہنچ گئی اور اس طرح مجرم پکڑا گیا اور اس نے پولیس کوبتایا کہ وہ اپنی گرل فرینڈ کی بے وفائی کی وجہ سے یہ جر م کیا ہے۔
پاکستان میں بھی پچھلے دنوں ایک نوجوان شاہ نواز امیر جو ایک امیر ماں باپ (کیونکہ ایسے جرم زیا دہ تر امیر والدین کے بچے کرتے ہیں )اس نے اپنی نو بیاہتا بیوی کو ڈمبل مار ما ر کر ادھ موا کرنے کے بعد باتھ روم کے لبا لب پانی سے بھرے ٹب میں ڈبو دیا اور پھر اپنی بیوی کو زندگی سے فارغ کرنے کے بعد فراغت سے بستر پر لیٹ گیا۔ بی بی نو ر مقدم غیر مسلم تہذیب کی چادر اوڑھے اپنے بوا ئے فرینڈ کو ملنے اس کے گھر گئی تھی دونوں نے ہو ٹل سے لذیذ کھا نا منگوا کراڑایا پھر بوا ئے فرینڈ نے پہلے اپنی گرل فرینڈ پر جنسی تشدد کیا پھر کند چھری سے اس کے جسم کے نازک اعضاء کا ٹے اور پھر اس کا سر تن سے جدا کر کے فٹ بال کی طرح اسے ہو ا میں اچھالتا اور کھیلتا رہا ۔ملکی ہو یا غیر ملکی بچے سب ایک جیسے ہوتے ہیں ان سب کے جرائم کے پیچھے والدین ہیں اور وہی قصور وار ہیں چونکہ سب والدین ترقی یا فتہ بننے اور سہولیات حاصل کرنے کے لیے والدین بچوں اور گھر بار کو نظر اندا ز کر تے ہیں۔ یہی سہولیات وہ بچے منفی کاموں میں صرف کرتے ہیں کیونکہ بچے کی فطرت میں یہ عنصر شامل ہے کہ وہ غیر معمولی کام کرنا چاہتا ہے۔ پھر اگر کوئی روک ٹوک نہ ہو تو آزادی انھیں ہر قسم کی اخلا قی پا بندیوں سے آزاد کر دیتی ہے۔ پھر ایک قوی وجہ ان جرا ئم کے پیچھے یہ ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام باہر پھینک دیا گیا ہے جہا ں والدین کی عدم موجودگی میں دادا دادی بچوں کو جسمانی ،ذہنی،اور نفسیا تی آسودگی مہیا کرتے تھے۔ اب عورت کی ملازمت نے چونکہ مرد کو نفسیا تی بیماریوں کا شکار کر دیا ہے اس لیے گھر میں ہر وقت والدین کی نا چاقی کا ماحول رہتا ہے ۔ ماہرین نفسیات نے فیصلہ کن (ریسرچ کے بعد) نتیجہ دیا ہے کہ جن والدین کے درمیان ناچاقی، علیحدگی یا طلاق ہوجاتی ہے ۔ نوے فیصد جرائم پیشہ بچے انھی والدین کے ہوتے ہیں جاپان جب امریکی ایٹمی حملے کے بعد مکمل طور پر بکھر گیا تھا جب انھیں اپنا ملک واپس ملا تو انھوں نے قانون دانوں ، ماہرین تعلیم، دانشوروں اور ماہر نفسیات کو ایک جگہ اکٹھا کر کرے مہینوں تک بند کمرے میں اجلاس کیے تاکہ ملک نئے خطوط پر استوار کیا جائے۔ انھوں نے اس ساری محنت کے بعد کچھ اصولوں کو باقاعدہ قانون سازی کی شکل دی ۔ اس قانون سازی کا پہلا قانون یہی تھا کہ بچوں کی تعلیم کا محکمہ حکومت اپنے پاس رکھے گی اس قانون کی کچھ شقیں یہ تھیں:
i۔  والدین کی پہلی ذمہ داری ان کے بچے اور گھر کی ذمہ دارانہ دیکھ بھال ہوگی ۔ii۔  محنت، کفایت شعاری اور صفائی ہر فرد کا قومی شعار ہوگا ۔iii۔  جھوٹ پر سخت سزا ہوگی ۔iv۔  اعلیٰ کردار پر بہت سخت عمل در آمد ہوگا۔ یہ قومی کار ہوگا اسی لیے اب بھی جاپان میں اگر کوئی فرد غیر اخلاقی حرکات کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ یا تو خود کشی کرلیتا یا روپوش ہوجاتا ہے ۔
جاپان نے اپنی نئی نسل کی بہتری کے لیے جو قانون سازی کی ہے ہمارے مذہب ِ اسلام میں تو اس سے بھی زیادہ مقوی اور تفصیلی اصول ضابطے موجود ہیں جو نئی نسل کو صحت مند (جسمانی اور ذہنی) رکھ کر ان کو حفاظت اور عافیت کا پرسکون اور مضبوط آستانہ عطا کر سکتا ہے جس میں کوئی جرم داخل نہیں ہوسکتا مگر اس آستانے کو بنانے میں جو محنت اور وقت درکار ہے وہ میرے ملک کے والدین کے ہاں نہیں ہے۔ قرآن حکیم کہتا ہے: اللہ کسی انسان پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ اپنے آپ پر خود ظلم کرتا ہے جاپان کی طرح ہمارے ملک میں بھی نوجوان نسل کو پاک صاف رکھنے اور انھیں بچانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے مگر میرے ملک کے ایوان ہائے حکومت تو سینما گھروں میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں سیاست دان اپنے اپنے فحش کردار ادا کر کے باہر نکل جاتے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق ایک دفعہ میرے ملک کے ایوانِ اعلیٰ میں کارروائی کے دوران ایک مرد ممبر نے ساتھ بیٹھی ایک خاتون ممبر کی گود میں ایک غیر اخلاقی الفاظ پر مشتمل ایک چٹ ڈال دی خاتون نے ناراضی میں چٹ ایوان میں پبلک کردی۔ اجلاس جو اہم قومی معاملے کی قانون سازی میں منعقد تھا ملتوی کردیا گیا  اور ممبران اس چٹ پر لکھے غیر اخلاقی الفاظ سے بھی زیادہ فصیح و بلیغ غیر اخلاقی الفاظ بولتے ہوئے گتھم گتھا ہوگئے ۔ میں نے انتہائی دکھ کی کیفیت میں دوسرے دن ’دی نیوز انٹرنیشنل‘ میں ایک انتہائی نڈر اور سچا کالم لکھ دیا عنوان تھا: ’Pandimonium in Parliament‘۔ اس وقت میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم تھے۔ مجھے انتہائی محبت اور احترام سے وزیر اعظم ہاؤس بلایا۔ میں ایسی عنایات سے پر ہیز کرتی ہوں مگر انھوں ایک ایسی بات کردی کہ مجھے جانا پڑا ان کا پہلا جملہ ہی یہ تھا،نگہت بی بی، آپ جیسی بے خوف خاتون کو سیاست میں ہونا چاہیے۔ میں نے عرض کی، سر میں اپنے اس صاف ستھرے لباس پر سیاست کا داغ ہر گز نہیں لگا سکتی۔ میرا دل چاہتا ہے میں اپنی نئی نسل کے لیے ایک تنظیم بنائوں جس کا نام ہوگا نئی نسل بچاؤ پارٹی (این این بی پی) مگر اس پارٹی کو بھی سیاسی بنا دیا جائے گا اور میںجو سیاست کو گناہ اور سیاستدانوں کو گنہگار سمجھتی ہوں پھر یہ گناہ کیسے کر سکتی ہوں؟ حالانکہ یہ کام تو ثواب کا کام ہوگا ۔ اللہ میری نئی نسل کا حامی و ناصر ہو!

epaper

ای پیپر-دی نیشن