حکومت اور فوج ایک پیج پر
ایک عرصے کے بعد یہ خوش کن خبر سننے کو ملی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں ۔آئینی اداروں کو ایک پیج پر ہی ہونا چاہئے تاہم ملک میں استحکام کی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب حکومت اور فوج ایک ساتھ مل کر چلیں اور ان کے درمیان کسی قسم کی محاذ آرائی نہ ہو ۔پچھلے دنوں فوج کا اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس کے بعد یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ایک تو مو جودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے میں نئی توسیع نہیں لیں گے ۔دوسرے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت اور فوج کے درمیان خوشگوار تعلقات کار قائم ہیں اور داخلی اور خارجی سکیورٹیز کے معاملات پر دونوں اداروں کی سوچ میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ قیامت خیز بارشوں اور سیلاب کے دوران فوج نے کس طرح وفاقی حکومت کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے مصیبت زدہ افراد کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اس دوران امدادی کارروائیوں میں موجود فوج کے دو ہیلی کاپٹر بھی حادثے کا شکار ہوئے جن میں فوج کے اعلیٰ افسروں اور جوانوں کی شہادت عمل میں آئی ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی وفاقی حکومت نے ان حادثات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور ایک سیاسی پارٹی کے پیرو کاروں کی طرف سے ان شہادتوں کی تذلیل اور تضحیک کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔وہ لوگ جو اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر رہے ہیں ہمیں ان کی قدر افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے ۔مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ نقطہ ایک سیاسی پارٹی کی سمجھ میں نہیں آرہا ۔اور وہ فوج کو ٹارگٹ کرنے کے لیے کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتی ۔یہ صورتحال پوری قوم کے لیے پریشانی ،پشیمانی اور شرمندگی کا باعث ہے ۔وزیر اعظم کی ہدایت پر ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں نے فوج کو سوشل میڈیا پر ٹارگٹ کرنے والوں کا سراغ لگایا جنہوں نے معافی مانگ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی مگر یہ لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔اس عمل میں کوئی شبہ نہیں کہ فوج کی اعلیٰ قیادت آئینی تقاضوں کے تحت ہر حکومت کی تابع فرمان ہوتی ہے ۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے جس طرح تند ہی سے عمران حکومت کو سپورٹ فراہم کی اس کی مثال پہلے نہیں ملتی ۔آرمی چیف نے ملک کی دگرگوں معاشی اور مالی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے چین ،سعودی عرب ،قطر ،امارات اور دیگر دوست ممالک سے رابطے قائم کیے اور پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،اسی طرح کرونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے فوج نے ادارہ جاتی نظام وضع کیا اور جب ساری دنیا کورونا کے ہاتھوں پریشان تھی تو پاک فوج کی منظم کوششوں سے پاکستانی عوام کو کورونا کے ہاتھوں کم ازکم نقصان پہنچا ۔کورونا کے لاک ڈائون میں جن نادار طبقات کو مالی پریشانیا ں اٹھانا پڑی ہیں ان کی بروقت امداد کے لیے بھی فوج نے حکومت کو پورا ڈیٹا فراہم کرنے میں مدد کی ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومتی پارٹی نے پاک فوج جیسے محسن ادارے کے احسان کو بہت جلد فراموش کر دیا اور قومی سلامتی کے ذمہ دار اس ادارے کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز کردیا ۔
فوج کی اعلیٰ قیادت کو برا بھلا کہا گیا ،فوجی افسروں اور اہلکاروں پر حملے بھی ہوئے لیکن آفرین ہے پاک فوج پر کہ اس نے صبر اور حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا۔ عمران خان نے حکومت میں ہوتے ہوئے میر جعفر اور میر صادق کی پھبتیاں کسیں ،نیوٹرل کو جانور قرار دیا اور غداری کے طعنے دیے ۔اس کشمکش اور محاذ آرائی کی وجہ سے ظاہر ہے حکومت وقت فوج کی حمایت سے محروم ہوگئی اور جب اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نے آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی تو حکومتی پارٹی اس اقدام کے سامنے ڈھیر ہو گئی ۔بہر حال نئی حکومت قائم ہوئی،سیاسی اور معاشی حالات بے حد مخدوش تھے ،عمران خان نے جاتے جاتے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے اتحادی حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام سے وقتی طور پر محروم ہوگئی ۔لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کوششوںکے نتیجے میں آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہو گیا اور پاکستان جو ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا اور ملک کی معاشی کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی تھی اس ابتر صورتحال سے نکل آئی ۔چند روز قبل جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا تو وزیر اعظم شہباز شریف کی زبانی پتا چلا کہ یہ کارنامہ بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔
نئے آرمی چیف کی تقرری کا وقت آن پہنچاہے ، پاک فوج کے ترجمان نے کوئی سال بھر پہلے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے میں توسیع نہیں لیں گے مگر پھر بھی آرمی چیف کو نہ بخشا گیا اور ان کے بارے میں چہ میگوئیاں جاری رہیں مگر آرمی چیف نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا تو وہاں انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ پاک فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے اور وہ سیاسی معاملات سے دور رہ کر اپنے پیشہ ورانہ فریضے پر توجہ مرکوز رکھے گی ۔یہی بات فوج کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد پھر دہرائی گئی ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ان وضاحتوں کے بعد فضا صاف ہو جانی چاہئے اور حکومت وقت کو موقع ملنا چاہئے کہ وہ اطمینان کے ساتھ حکومتی معاملات چلائیں اور عوام کی معاشی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوششیں کریں۔ حالات کو خراب کرنے میں اس وقت بھی ایک طبقہ پیش پیش ہے اور وہ فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ اسے صرف اقتدار سے پیار ہے اور تین کروڑ سیلاب زدگان سے اسے کوئی غرض نہیں ۔سیاسی جلسے جلوسوں اور گھیرائو جلائو سے وہ امن عامہ کی صورتحال بگاڑنے کی کوشش میں مصروف ہیںمگر فوج اور حکومت ایک پیج پر ہوں گے تو نہ قومی مفاد پر کوئی آنچ آنے پائے گی اور نہ سیاسی انتشار کو ہوا دی جا سکے گی ۔