کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے لہو کا شور سنو!
آج کشمیر پر بھارت کی جانب سے قبضہ مضبوط کرنے کے غیر قانونی اقدام کو 1178 دن ہوگئے ہیں ، آج سے 1178دن قبل اگست 2019ء کو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے شب خون مارا گیا جس سے کشمیریوں کے جذبہ حریت میں بے پایاں اضافہ ہوا۔ وہ طوفانوں اور پہاڑوں سے ٹکرانے کا عزم لے کر نکلے تو بھارت نے ان پر بدترین پابندیاں لاگو کر دیں اور یہ آج بھی بدستور نافذ ہیںبھارت کے اس غیر قانونی اقدام کو کشمیری خاطر میں نہیں لا رہے‘ جب بھی موقع ملتا ہے گھروں سے نکل کر مظاہرے کرتے اور بھارتی فورسز کی سیدھی فائرنگ سے موت کی لکیر پار کر جاتے ہیں۔ کشمیری آزادی سے کم پر آمادہ نہیں جبکہ بھارت کو انسانوں سے زیادہ علاقے سے غرض ہے جو سیاحوں کی جنت اور نوادرات کی آماجگاہ ہے۔ بھارت نے کشمیریوں پر مزید ظلم کے پہاڑ توڑنے کیلئے فوج کی تعداد ساڑھے نو لاکھ کردی ہے۔
اس سال جہاں پاکستان کو قائم ہوئے 75 واں سال ہے اسی طرح بھارت کے قبضے کو بھی 75 سال ہوگئے ہیںَ بھارت جو اپنے اکابرین ( نہرو) کے اقدامات کا بھی پابند نہیں اور عالمی اداروں مین نہرو کے بیانات اور وعدوں سے منحرف ہوگیا ایسی حکومت اور ملک سے کیا امید لگائی جاسکتی ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی تجویز پر کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر سردست تیار نہیں ہے ۔ اس نے آرٹیکل 270 اور 35اے کا خاتمہ اسی سازش کی تکمیل کیلئے کیا ہے۔
گزشتہ دوسال سے اب تک بھارت کے 22 لاکھ ہندو شہریوں نے مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل کیلئے درخواستیں جمع کرائیں جن میں سے اٹھارہ لاکھ کو پچھلے چند ماہ ڈومیسائل دیکر تمام شہری حقوق دیئے گئے ہیں۔ بھارت جن لوگوں کو کشمیر میں لا کر آباد کررہا ہے‘ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اکثریت یا تو سابق فوجیوں کی ہے یا آرایس ایس کے شدت پسند نظریاتی کارکن ہیں۔
بھارت پچاس لاکھ ہندوئوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دینے کے بعد اگلے مرحلہ میں انتخابی حلقوں میں تبدیلیاں لا کر بی جے پی کو حکمرانی دیکر مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ عالمی ادارے جو پاکستان کو تو دہشت گردی کا الزام تو دے سکتے ہیں مگر آنکھوںکے سامنے ہونے والی بھارتی دہشت گردی اسے نظر نہیں آتی یہ جہاں عالمی اداروں کا نقص اور بھارتی حمائت ، بھارتی جھوٹ ہے وہاں ہماری وزار ت خارجہ امور کا بھی نقص ہے ، ہمارے مسائل ہی اتنے ہیں کہ ان سے فرصت نہیں اور کشمیر کے معاملے کو درجہ دوم پر رکھا ہے۔کشمیری عوام پاکستان کی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ عالمی اداروں تک انکی بات پہنچائیں،یا پھر ان کے لئے مواقع پیداکریںکو وہ ازخود کشمیر کے معاملے پر ہر فورم پر اصل کشمیریوں کی نمائیندگی کریں ، کشمیری رہنمائوں کے بے حد اصرار کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے اصل نمائندوں کی مذاکرات کے مرحلے سے دور رکھا جاتا ہے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت کو غیرفطری تبدیلی کے ایسے تباہ کن نتائج ہونگے کہ پورا علاقہ آگ کی نظر ہوسکتا ہے ۔ مگر اقوام متحدہ میں صاحب رائے اور اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کے نزدیک بھارت کی بڑی مارکیٹ مین تجارتی تعلق کشمیریوںکے بہنے والے خون سے بہتر نظر آتے ہیں یہ وجہ ہے بھارت کسی بھی موقع پر عالمی اداروں کی بات چیت کو کسی خاطر میں نہیں لاتا ۔ یہاں تک اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی جب کشمیر پر بات کرتی ہے تو بھارت نہائت ہٹ دھرمی سے واضح طور پر او آئی سی کے خلاف بیان بازی کرتا ہے تاریخ کشمیر کیمطابق یوم سیاہ محض ایک روایت یا علامت نہیں ہے بلکہ اہلِ کشمیر کی جانب سے اقوامِ عالم کے لیے ایک بھر پور پیغام ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو سات دہائیاں گزرجانے کے باوجود اہلِ جہان کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔
کتنی ہی دفعہ اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاچکا ہے۔ ہندوستان کی ظالمانہ پالیسیوں کوبے نقاب کیا جاچکا ہے۔ تقریباً تمام عالمی اداروں کو اہلِ کشمیر اپنی روداد قفس سنا چکے ہیں۔ شاید کبھی کوئی قبولیت کا لمحہ آئے اور اقوامِ عالم کو کشمیریوں کے کرب کا اندازہ ہوپاکستان آج تک کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا آیا ہے، پاکستان کل بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ تھا آج بھی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرتا رہے گا۔ اس ستائیس اکتوبر کو دنیا عزم کرے کہ دہائیوں سے جاری مظالم کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانے ہیں اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں کردار ادا کرنا ہے۔ مالی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے کے خاتمے میں کردار ادا کرنا ہے۔
کشمیر کے سلسلے میں اور وہان کی تحریک آزادی پاکستانی میڈیا کا کردار نہائت افسوس ناک ہے صرف ادارہ نوائے وقت ہی ڈاکٹر مجید نظامی کے زمانے سے کشمیر پر دوٹوک پالیسی پر قائم ہے ڈاکٹر مجید نظامی کشمیر پالیسی پر کسی دبائو میں آئے اور نہ ہی انکی صاحبزادی جو آج بھی آزادی کشمیر کا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہیں اسی لئے آج بھی کشمیری تمام میڈیا گروپس میں صرف نوائے وقت کی کاوشوںکو سلام کرتے ہوئے اسے کشمیر کی تحریک میں اپنے شانہ بشانہ پاتے ہیں ۔
٭…٭…٭