فری لانس صحافیوں کو درپیش مسائل
صباحت خان دو ہزار بارہ سے رپورٹنگ کر رہی تھیں لیکن بچے کی پیدائش کے بعد ایک سال کے دوران میڈیا ادارے کے ساتھیوں کے ناروا سلوک اور بچے کے ساتھ آفس آنے پر ادارے نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔ صباحت کہتی ہیں کہ جاب سے نکالے جانے کے بعد فری لانس کام میں انہیں قومی زبان اردو پر عبور ہونے کی وجہ سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اردو صحافت کے حوالے سے فری لانسنگ کی مارکیٹ بہت کم ہے۔ فری لانس صحافت اپنے فوائد کے باعث دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہونے والی صحافت کی جدید قسم ہے۔ فری لانس صحافی اداراتی پالیسی کی پابندیوں سے آزاد ایک سے زیادہ بیٹس اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ وہ اپنے کام کے کاپی رائٹس خود رکھتا ہے لیکن اپنے کام کے لیے حاصل کی گئی معلومات کو اپنی مرضی کے مطابق مختلف کہانیوں میں شامل نہیں کرسکتا ہے۔ وہ اپنی ذات، وقت اور کام میں خودمختار ہوتا ہے، جس کے باعث وہ نئی مہارتیں سیکھ کر اپنے کام میں نکھار اور اپنے پروفائل کا دائرہ کار وسیع کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی سروے اور پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹس کے مطابق فری لانس صحافت تحقیقاتی صحافت کو فروغ دیتی ہے۔ ان تمام فوائد کے ساتھ فری لانس صحافت کو پاکستان میں کئی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔تنازعات والے علاقوں میں کام کرنیوالے فری لانسرز کیلئے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ خبر فری لانسر کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالے۔فری لانسر صحافی کے لیے زندگی کا خطرہ دیگر صحافیوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ فری لانسر صحافی انعم لودھی کہتی ہیں کہ ، فری لانس صحافی کے پاس جنگی یا متنازعہ علاقوں میں خبررسانی کیلئے سیفٹی ٹریننگ، میڈیکل کوریج اور زندگی کی انشورنس ہونی چاہیے۔بلوچستان کی فلم اور ڈاکومنٹری میکررانی واحدی کے مطابق مشہور میڈیا ادارے کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کسی بھی متنازعہ علاقے میں کام کرنے کیلئے اپنی صحافتی شناخت کو بھی چھپانا پڑتی ہے۔ کچھ ادارے شوٹنگ کی جگہ تک رسائی میں خلل ڈالتے ہیں، میڈیا اداروں کو فری لانس صحافیوں کے ساتھ ایک معاہدہ تیار کرنا جس میں انشورنس کور اور کام کے دائرہ کار کا واضح تعین شامل ہو۔‘تئیس برس سے بطور فری لانس کام کرنی والی ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز کا کہنا ہے کہ بطور فری لانس صحافتی ادارے کی شناخت نہ ہونے کے باعث ہائی پروفائل شخصیات، کونسلٹ اور غیرملکی وفود سے ملنے کی اجازت لینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حساس جگہوں پر رپورٹنگ کیلئے داخلے میں صرف کسی مرکزی دھارے کے رپورٹر کو ہی جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ باقاعدگی سے سرکاری یا ریڈ زون، عدالتی کارروائی کو دیکھنے کیلئے بھی فری لانسر کیلئے اجازت نامہ لینا جوئے شیر لائے کے برابر ہوتا ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں فری لانسرز کو گرانٹس کی درخواست کیلئے مدیر کے خط کی شرط کیساتھ اجازت دیتے ہیں حالانکہ فری لانسر اپنے وقت اور کام کا خود منتظم ہوتا ہے، اس میں ادارے کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ چشمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک خبر کی تصدیق کیلئے متعلقہ ادارے کے آفیسر کو بطور فری لانس صحافی فون کیا تو ادارے کے فوکل پرسن نے بیان دینے کی بجائے چشمان کی قابلیت بطور صحافی چیلنج کردی کہ ‘‘اگر اتنی اچھی صحافی ہوتی تو کسی مرکزی دھارے کے میڈیا ہاؤس میں کام کر رہی ہوتی، اس لئے اداروں کی جاسوسی کرنا بند کرو۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی۔پی۔ایف) نے تجویز پیش کی ہے کہ فری لانس صحافیوں کے ساتھ میڈیا کے دیگر پیشہ ور افراد کے برابر سلوک کرنا چاہیے۔فری لانس صحافت میں اجرت کی ادائیگی میں تاخیر ایک اہم حصہ ہے۔ شبینہ فرازکا کہنا ہے کہ آئیڈیا اور فائنل سٹوری کہ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ کتنا معاوضہ ملے کے برقی خط کے علاوہ پہلے سے آدھی رقم بھی ادا نہیں کی جاتی ۔ سوات سے تعلق رکھنے والے شہزاد نوید گزشتہ آٹھ برسوں سے صحافت کے شعبہ سے منسلک ہیں جبکہ گزشتہ تین برس سے فری لانس کام کر رہے ہیں انکے مطابق دوردراز، مشکل اور پہاڑی علاقوں میں سفر کے تمام معاملات یعنی بس یا جہاز کی ٹکٹ یا فلمی تکنیکی آلات مثلاً کیمرہ وغیرہ یا عارضی معاون ساتھ یا ٹیم یا مزدور کی اجرت وغیرہ کی کوئی پیشگی مالی مدد نہیں دی جاتی۔زیادہ تری فری لانسر صحافیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحافی کے ہمیشہ ایک سے زائد آمدن کے ذرائع ہونے چاہیے تاکہ اگر ایک ذریعہ بند ہو تو دوسرا کام آجائے۔ اس بات کو یقینی بنانے کا طر یقہ کار ہونا چاہیے کہ فری لانسر کو مناسب اور بروقت معاوضہ ملے۔