گرفتاری سے بچ کر مارچ کیلئے لاہور کا کا قر عہ فال نکل آیا
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
ملک میں موسم سرد ہو رہا ہے لیکن سیاسی درجہ حرارت ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ،الیکشن کمیشن کی جانب سے ناہل ہو نے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کل( جمعہ )28اکتوبرکو لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے ،لانگ مارچ کا مقصد ملک میں فوری عام انتخابات کیلئے مطالبہ تسلیم کروانا ہے ،یہ لانگ مارچ اپنے مقاصد میں کا میاب ہو تا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئے گا ،عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ لانگ مارچ کوئی سیاست نہیں ہے بلکہ ہم پاکستان کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ فیصلہ کرے گا کہ پاکستان کہاں جانا ہے؟ساتھ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ حقیقی آزادی کے مارچ کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، ہم جی ٹی روڈ سے عوام کو ساتھ لے کر اسلام آباد پہنچیں گے، جہاں پورے پاکستان سے وہاں عوام آئیں گے۔عمران خان کے آزادی مارچ کی کا میابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ عوام کو کتنی بڑی تعداد میں لے کر اسلام آباد پہنچنے میں کا میاب ہوتے ہیں؟کیو نکہ مارچ کے مقاصد کے حصول کے لیے عوام کا اس مارچ میں لاکھوں کی تعداد میں شامل ہو نا ضروری ہے ورنہ یہ مارچ بھی عمران خان کے پچھلے لانگ مارچ کی طرح ایک جلسے کے بعد اختتام پذیر ہو جائے گا۔ اس وقت اسلام آباد کا رات کا موسم سرد ہو چکا ہے مارچ کے شرکا ء کے لئے رات کھلے آسمان تلے گزارنا انتہائی مشکل ہو گا ،عمران خان نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ان کا مارچ ریڈ زون میں داخل نہیں ہو گا، عدالت نے جہاں جلسہ کرنے کی اجازت دی ہے وہیں جائیں گے۔ حکو مت کی بھی یہ کوشش ہو گی کہ لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہی نہ ہو نے دیا جائے اور اگر مارچ کے شرکائ اسلام آباد میں داخل ہو بھی جائیں تو یہ ریڈ زون تک نہ پہنچ پائیں اور انہیں کسی ایک جگہ پر جمع نہ ہو نے دیا جائے۔
حکومت اس مارچ کو روکنے کی تیاریاں مکمل کر چکی ہے اور وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ اس حوالے سے کافی مطمئن نظر آتے ہیں۔دوسری جانب عمران خان کا دعویٰ ہے کہ'' میںپیش گوئی کر رہا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ کا عوام کا سب سے بڑا سمندر ہوگا اور ہم چاہتے ہیں ملک کے لوگ فیصلہ کریں۔''لیکن اسلام آباد کے تمام داخلے راستوں پر پڑے کنٹینر ز کے انبار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دارالحکومت کی حفاظت کے لیے رانا ثنا ء اللہ کئی دنوں سے مکمل تیار ہیں ،تحریک انصاف کے مارچ کے شرکاء کو شائد اسلام آباد کی حدود تک پہنچنے میں تو کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کر نا پڑے کیو نکہ اسلام آبا د کی حدود ایک طرف سے خیبر پختونخوا اور تین طرف سے پنجاب سے ملتی ہیں ،پنجاب ،خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی ہی حکومت ہے اس لیے شرکاء اسلام آباد کو چاروں طرف سے گھیرے میں سکتے ہیں اورلاہور سے عمران خا کی قیادت میں آنے والا مارچ روات ٹی چوک،راولپنڈی سے آگے بڑھنے والے کا رکنان فیض آباد ،آزاد کشمیر سے آنے والے کا رکنان بارہ کہواور خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلے سنگجا نی اور موٹروے چوک پر پڑائو ڈال سکتے ہیں ،اگر عوام کی بڑی تعداد مارچ میں شامل ہو ئی تو وفاقی حکومت انتظامی اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنے آئینی اختیارات استعمال کر سکتی ہے اور متعدد اقدامات اٹھا سکتی ہے ۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ '' میں نے یہ مارچ پہلے کرنا تھا، مئی میں انہوں نے تشدد کیا، اگر اگلے دن اس کو ختم نہ کرتا تو واقعی ملک میں خون بہنا تھا اور مجھے پتا کہ اگلے دن خون کی طرف جانا تھا لیکن انتشار سے بچنے کے لیے ختم کیا پھر ہمارا مذاق بھی اڑایا گیا۔''عمران کا لاہور جا نا اور وہاں سے لانگ مارچ کا شروع کر نے کا علان یہ واضح کر تا ہے کہ اسلام آباد میں لانگ مارچ کے اعلان سے ان کو اپنی گرفتاری کا خدشہ تھا اسی لیے انہوں نے لاہور جاکر یہ اعلان کیا ،عمران خان نے یہ بھی تسلیم کیا ہے بیک ڈور رابطوں کے ذریعے ان کا فوری انتخابات کا مطالبہ پورا نہیں ہو سکا ،انہوں نے کہا کہ'' سیاسی جماعتیں ہمیشہ مذاکرات سے اپنے مسئلے حل کرتی ہیں بندوق سے نہیں، ہمارے دروازے ہمیشہ بیک ڈور چینلز پر کھلے تھے لیکن مجھے پورا یقین ہوگیا ہے یہ الیکشن کسی صورت نہیں کریں گے۔''
ادھر وفاقی حکومت نے افریقی ملک کینیا میں جاں بحق ہونے والے معروف اینکر ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے تین رکنی ہائی پروفائل ٹیم تشکیل دے دی ہے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والی تین رکنی ٹیم میں انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)، انٹر سروسز انٹیلیجنس سروس(آئی ایس آئی)اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)کے نمائندے شریک ہوں گے۔تین رکنی ٹیم ہائی پروفائل قتل کی تحقیقات کیلیے فوری طور پر کینیا روانہ ہوگی اور اپنی رپورٹ وزارت داخلہ جمع کرائے گی۔اقوام متحدہ نے افریقی ملک کینیا سے پاکستان کے معروف صحافی اور سینئر اینکرپرسن ارشد شریف کی پراسرار موت کی مکمل تحقیقات پر زور دیتے ہوئے نتائج منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔''پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے صحافی ارشد شریف کے قتل کے بعد ہونے والی الزام تراشی پر مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مہم سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا تعین ہونا چاہیے۔جو بھی لوگ یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں اور سانحے کو جواز بنا کر من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں ، اس صورت حال پربہت سے سوالات اٹھے ہیں۔''۔حکومت کی طرف سے سینیئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی انکرائری کے لیے اعلیٰ سطح ٹیم تشکیل دینا خوش آئند ہے اس قتل کے حقائق سامنے آنے سے بہت سے شکوک وشبہات کا خاتمہ ہو گا اور اس قتل کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر نے والوں کو بھی شرمندگی اٹھا نا پڑے گی ،ہمارے ہاں کسی بھی واقعے میں اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر نے کی بجائے سازشوں کو ڈھونڈا جا نا روایت بن چکا ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ مؤقف بالکل بجا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کے بعد ہونے والی الزام تراشی کی مہم سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا تعین ہونا چاہیے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کے دو روزہ سرکاری دورے کے موقع پر سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان سے ملاقات کی جہاں معیشت اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا کیا۔ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور اقتصادی شعبے میں تعاون مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔وزیراعظم کے ہمراہ پاکستانی وفد میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار، وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیرمملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر شامل تھیں۔ سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت کا آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ بھی متوقع ہے ،دنیا میں بننے والے نئے اتحاد اور ایک دوسرے کی مشکلات کے حل کیلئے سعودی اعلی قیادت کا دورہ پاکستان بلا شبہ اہمیت کا حامل ہو گا۔